غزل کے مکمل شعر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کے اندر کثیر الجہات جہانِ معانی پنہاں ہوتا ہے دیکھئے ڈاکٹر خورشید رضوی نے کیا باکمال شعر کہا ہے: آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حسن سِل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں امریکی ناول نگار جان سٹین بک نے جنوبی امریکہ کے قدیم پس منظر کے حوالے سے ایک ناول لکھا تھا کہ جو 1947ء میں پہلی بار شائع ہوا۔ ناول کا موضوع تو انسانی فطرت میں چھپا ہوا لالچ و حسد وغیرہ ہے۔ تاہم شہرت یافتہ ناول ’’دی پرل‘‘ کے مظلوم ہیرو نے ایک موقع پر بڑی پتے کی بات کہی اس نے کہا کہ یہ تو معلوم نہیں کہ خبر کیسے پھیلتی ہے مگر یہ پھیلتی بڑی تیزی سے ہے۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب اخبار تھا نہ ریڈیو اور جدید ذرائع ابلاغ کا تو کوئی سوال نہ تھا۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے اس امر پر نہایت تشویش کا اظہار کیا کہ بعض عناصر کی جانب سے آزادی اظہار کی آڑ میں اعلیٰ حکومتی شخصیات پر بغیر کسی ثبوت شواہد کے الزامات لگائے گئے اور وزیر اعظم سمیت وزراء کی نجی زندگیوں کو بے بنیاد پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم نے کئی بار میڈیا پر حکومتی ترجمانوں، ایڈمنسٹریشن وغیرہ کے بارے میں کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے۔ وزیر اعظم کچھ عرصہ قبل جب امریکہ کے دورے پر گئے تھے تو دم واپسی انہوں نے واشنگٹن میں سینئر صحافی شاہین صہبائی سے بھی یہی کنسرن شیئر کیا تھا کہ میں اس میڈیا کا کیا کروں جو چین نہیں لینے دیتا۔ اس وقت تو جناب عمران خان نے یہ شکایت ایک دو میڈیا ہائوسز کے بارے میں کی تھی۔ مگر اب تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا شکوہ عمومی ہے خصوصی نہیں۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا وہ حکمرانوں کی آنکھیں اور ان کے کان ہوتا ہے۔ حکمران سیاسی ہو یا عسکری اس کے گرد ہمیشہ خوشامدیوں اور درباریوں کا ایک ٹولہ موجود ہوتا ہے جو حاکم وقت کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دیتا ہے جبکہ سب اچھا نہیں ہوتا۔ پاکستانی میڈیا کی تاریخ پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستانی میڈیا جتنا ’’عمران خان فرینڈلی‘‘ رہا ہے اتنا کبھی کسی دوسرے سیاست دان یا فوجی حکمران کے لئے فرینڈلی نہیں رہا۔ حتیٰ کہ بعض میڈیا ہائوسز نے جناب عمران خان کو پرائم ٹائم پر وہ لائیو کوریج دی جس کی پاکستانی سیاست میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ میں اس کوریج کی بات کر رہا ہوں جو ان کے برسر اقتدار آنے سے پہلے انہیں دی گئی تھی۔ اگر میں ان اینکروں، کالم نگاروں کو گنوانا شروع کر دوں تو سارا کالم ان ناموں ہی کی نذر ہو جائے گا، جنہوں نے جناب عمران خان کی بغیر کسی لالچ‘ بغیر کسی معاوضے اور بغیر کسی دبائو کے ’’امیج بلڈنگ‘‘ کی اور محض اپنی ذاتی مثبت رائے کی بنا پر کی۔ جناب عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ اگر آج وہی اینکرز وہی کالم نگار وہی تجزیہ کار اور وہی اخبار نویس ان کی حکومت کی معاشی و انتظامی کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں تو وہ کسی ذاتی صفعت یا عناد کی بناء پر نہیں بلکہ امیدوں کے ٹمٹماتے چراغوں کو بجھنے سے بچانے اور عمران خان کو کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھنے کی خواہش کی تکمیل کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ لہٰذا جناب عمران خان کو ان خیرخواہوں کی ’’تنقید‘‘ کا خیر مقدم کرنا چاہیے اور اس کے بارے میں کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کابینہ اجلاس کی کارروائی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ بعض عناصر کی جانب سے آزادی اظہار کو ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں بدقسمتی سے میڈیا کو آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت ایک بل قومی اسمبلی میں لائے گی۔ اس ضمن میں حکومتی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ میڈیا سے متعلق مقدمات التوا کا شکار ہونے سے خود احتسابی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔اس لئے سپیشل میڈیا ٹربیونل بنائے جا رہے ہیں جو تمام سٹیک ہولڈرز کی شکایات کا ازالہ کریں گے۔ حکومت میڈیا کے تمام سٹیک ہولڈرزکو آن بورڈ لینے کی باتیں کرتی رہتی ہے مگر اس معاملے میں حکومت نے میڈیا سے متعلقہ شخصیات کو نہ ہی میڈیا مالکان کو اور نہ ہی میڈیا ہائوسز اور میڈیا باڈیز کو اعتماد میں لیا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی منطق نرالی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم بل منظور کروانے کے بعد میڈیا والوں کو اعتماد میں لیں گے۔ تاریخ عالم پر نظر ڈالیں اور جہاں سے چاہیں شروع کر لیں آپ کا سامنا اس دلچسپ حقیقت سے ہو گا کہ حکمرانوں کو جوچیز سب سے زیادہ تلخ اور ناگوار محسوس ہوتی ے وہ صرف تنقید ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاست مدینہ نے آزاد میڈیا اور جوابدہی کا ایسا کلچر دیا کہ جس کی نظیر اس سے پہلے کہیں نہیں ملتی۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے منصب خلافت سنبھالنے کے بعد جو پہلا خطبہ ارشاد فرمایا اس میں واشگاف انداز میں کہا کہ تم میں سے سب سے کمزور شخص میرے نزدیک انتہائی طاقتور ہے حتیٰ کہ وہ مجھ سے اپنا حق وصول کر لے اور تم میں سب سے قوی شخص میرے نزدیک کمزور ترین ہے حتیٰ کہ میں اس سے کسی کمزور کا حق وصول نہ کر لوں۔ انہوں نے تنقید اور جوابدہی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔یہی طرز عمل حضرت عمر بن خطابؓ نے اختیار فرمایا جب ایک بدو نے مسجدنبوی میں دوران خطبہ حضرت عمرؓ کو روک کر کہا کہ ہم نہ سنیں گے نہ اطاعت کریں جب تک کہ آپ اس سوال کا جواب نہ دیں کہ آپ کو مال غنیمت میں سے جو کپڑے کا ٹکرا ملا تھا اس سے آپ کی ثوب تو نہ بن سکتی تھی جو آپ اس وقت زیب تن کئے ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا کہ تم جواب دو۔حضرت عبداللہ نے کہا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا اپنے والد کو دے دیا تھا یوں دو ٹکڑوں کو ملا کر (طویل القامت) حضرت عمر کا کرتہ تیار ہوا تھا۔ اس بدو نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ ہاں ! اب ہم سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے۔ تاریخ اسلام اس طرح کی مثالوں سے روشن ہے۔ ان سنہری مثالوں کے تقریباً چھ سو برس بعد انسانی تاریخ کی ایک اہم قانونی دستاویز وجود میں آئی۔ اس میگنا کارٹا کے ذریعے برطانوی عوام نے 1215ء میں اپنے بادشاہ جان کو مجبور کیا کہ وہ یہ مانے کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں۔ جان نے اس دستاویز کے ذریعے اس بات کو مانا۔ اس میگنا کارٹا دستاویز کی ایک شق کے تحت بادشاہ نے عہد کیا کہ شخص آزاد ہے۔ اسے نہ تو محصور کیا جائے گا نہ مقید۔ اور نہ ہی اسے جلا وطن کیا جائے گا اور ہر شخص کو انصاف ملے گا۔ آج کی جمہوری دنیا کے اندرمیگنا کارٹا پر عمل کیا جاتا ہے۔ مگر یہ مہذب دنیا خاص طور پر امریکہ اپنے ملک سے باہر انسانی حقوق کی پامالی کو قابل مذمت اور قابل گرفت نہیں سمجھتا۔ آج آپ اسلامی دنیا پر نظر ڈالیں تو یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اکثر ممالک نہ ریاست مدینہ کے دیئے گئے حق تنقید کو عملاً تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی دور جدید کی مہذب دنیا میں رائج آزادی تحریر و تقریر اورآزادی اجتماع کو مانتے ہیں۔ بعض عرب ممالک میں تو آزادی اظہار کا کوئی تصور ہی نہیں۔ پاکستان میں نہ صرف اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا شخصیات ہی میڈیا پر خفی و جلی قدغنوں کے بارے میں اظہار تشویش کرتے رہتے ہیں بلکہ چند روز قبل دو تقریبات میں چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیا کو قدغنوں سے آزاد کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حکومت شخصیات پر ذالی و شخصی حوالے سے حکومت کے تحفظات بجا ہیں۔ اس بارے میں سینئر میڈیا شخصیات اور میڈیا مالکان کے ساتھ مل بیٹھ کر حکومت کو مؤثر ضابطہ اخلاق ترتیب دینا اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔ میڈیا پر قدغن اس کا حل نہیں۔ خبر کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ کیونکہ : آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حسن سِل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں