1947ء سے بالعموم ااور2014ء سے بالخصوص بھارتی حکمرانوں کے غصیلے تیورسے یہ اخذ کرناکوئی مشکل کام نہ تھاکہ بھارت میں مسلمانوں کاکوئی مستقبل نہیں۔آج واضح طورپربھارت کامسلمان جن زہرگدازمصائب وآلام کاشکارہے یہ بہت پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ تھاجس پربس عمل درآمدکاسلسلہ چل پڑاہے۔ مسلمان بھارت کی تمام ریاستوں میں دوڑائے ہانپائے جارہے ہیں،سانسیں انکی پھولی ہوئیں،اکھڑی ہوئیں،آنسو بہہ بہہ کرآنکھیں خشک،کھال خشک، ہونٹ خشک ۔ٹھنڈی آہیں بھر رہے ہیں،لرزتی زبان سے فریادکناں ہیں ،چہرے اترے ہوئے ہیں۔ان کی کشتی حیات منجدھار میں مسلسل ہچکولے کھارہی ہے ۔یہ ہے آج کے ہندوراشٹربھارت میں مسلمانوں کے حالات بدکی منظرکشی اوریہ ہیں انکی حیات کے جگرسوزمناظر۔ دیہاتوں میں مسلم آبادیاں کس حال میں ہیںانکے حالات پرکالم لکھنے بیٹھیں توپھرہاتھ کانپ اٹھتے ہیں۔ مسلمان دشمنی میںوہ دھڑے بھی مودی کے سانجے داربنے ہوئے ہیں جو سیکولرازم کا چولہ پہننے مسلمانوں کے ووٹ بٹورتے رہے، نتائج وعواقب کی پرواہ کئے بغیر بھوکے، پیاسے تپتی اورچلچلاتی دھوپ میں پیادہ پاہوکربھارت کے مسلمان نہ صرف ان کی شان میں زندہ بادکے نعرے بلندکرتے رہے ہیں بلکہ اپبے ووٹوں سے انہیں جتواتے بھی رہے۔مگرجب آج انکے مسلمان ووٹروں پہ افتادآن پڑی تودیکھ کروہ نودوگیارہ ہوگئے۔یہ توطے تھاکہ وہ ان کے مسیحاکس طرح ہوسکتے تھے یہ سراسر ایک ڈھکوسلہ تھا، صریح جھوٹ ، مضحکہ خیز مذاق تھا۔ کیوں کہ انکی موجودگی میں بھی انہیں ہمیشہ ناگفتہ بہ حالات سے پالا پڑا، ان کے مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے چلے گئے ۔دراصل ایک شرمناک منصوبے کے تحت انہیں ہمیشہ انسانی زمرے سے باہرسمجھاگیااورجان بوجھ کروہ کثیرالجہتی مسائل کے شکاربنادئے گئے مگراب ان پرجوقیامت ڈھائی جارہی ہیں اس سے ان کا ساراکچھ چھیناجارہاہے وہ یہ کہ انہیں جبری طورمرتدبنایاجارہاہے۔ 10مئی کوبھارت کی ریاست حیدرآبادسے شائع ہونے والے اردواخبارسیاست نے خوفناک خبرشائع شائع کی ہے جس میں بتایاگیاکہ بھارتی پنجاب سے ملحق ریاست ہریانہ کے ضلع حصار کے گائوں بدھ میرا میں جمعہ2مئی2020 ء کو 40مسلم خاندانوں کے تقریبا 250 افراد کو مرتد ہندو بنادیاگیا ۔ اسلام چھوڑکرہندوبنادیئے گئے ان لوگوں سے ان کی وفاداری کایقین کرنے کے لئے ان کے مردوں کواپنے ہاتھوں سے شمشان گھاٹ میں جلائے جانے کاکام کروایاگیا ۔ اخبارلکھتاہے کہ اسے پہلے اپریل 2020ء میںبھی6 مسلم کنبوںکے 35 ارکان کو جندھ علاقہ کے گائوں میں اسی طرح جبری طورپر ہندو بنایاگیاجس کاکہیں بھی چرچا نہیں ہوا ۔ اسے قبل ہریانہ کے روہتک ضلع کے ٹٹولی گائوں میں ایک پنچایت نے فرمان جاری کرکے مقامی مسلمانوں پر ٹوپی پہننے اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی۔ اسکے علاہ یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ بچو ں کے ہندو نام ہی رکھیں گے۔ گائوں کے بیچ میں وقف بورڈ کی جو زمیں قبرستان کیلئے استعمال ہوتی تھی اسکو پنچایت نے اپنی تحویل میں لیکر زرعی اراضی میں تبدیل کردیا۔عیدگاہ ان سے چھین لی گئی۔ گائوں کی 3000نفوس کی آبادی میں 600مسلمان ہیں۔ اس فرمان میں مزید بتایا گیا کہ گائوں میں کہیں بھی کھلی جگہ پر نماز ادا نہیں کی جائیگی۔ گائوں یا اس کے آس پاس میں کہیں بھی مسجد نہیں ہے۔ مسلم آبادی جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے روہتک شہر جاتے ہیں۔چونکہ تقسیم کے وقت یہ علاقہ شدید فسادات کی زد میں آگیا تھا۔ جولوگ کئی وجوہات کی بنا پر ہجرت نہیں کرسکے، انہوں نے اپنی حفاظت کی خاطر اپنے نام تبدیل کرلیے ۔ وہ دیوالی ،ہولی اور دیگر ہندو تہوار بھی مناتے ہیں ، مگر گھروں میں مسلم رسوم و رواج کو انہوں نے زندہ رکھا ہوا تھا۔ ان کی نئی پود اب باقاعدہ مسلم شناخت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے ، جس پر اعتراض جتایا جا رہا ہے۔ برطانوی سامراج کی چھٹی کے دن قریب آتے ہی ہندوستان کی ہندوقیادت نے آزادہندوستان کاخاکہ تیارکرلیاتھاجسے قائداعظم کے سواکوئی نہ سمجھ پایاتھااور 1947ء سے بھارت نے ہندوتواکی طرف لڑھکناشروع کردیاتھا2014ء کووہ اپنے ہدف پراس وقت پہنچاکہ جب مودی بھارت کے اقتدارپرمتمکن ہوا۔اب ہندوتوابھارتی معاشرے کے ظاہروباطن،اس کے رگ وپے میں پوری طرح پرسرائیت کرچکاہے اوربھارتی معاشرہ شعوری طورپراب آرایس ایس ماڈل’’ہندوراشٹر‘‘ بن گیا۔اس راشٹر میںمسلمانوں کا مقام اور مرتبہ کیا ہے وہ تواعلاناََبتادیاگیاہے ۔کہ ہندوستان پر ایک ہزارسال قائم رہنے والی تمہاری راج نیتی کاتم سے بدلہ لیناہے ۔بدلہ اس طرح لیاجائے گاکہ گائے ذبح کروگے توتمہیں ذبح کریں گے۔اسلام کی تبلیغ کروگے توجیل جائوگے اورتمہارے ساتھ معاشی مقاطعہ کرکے تمہیں خا ک بسرکیاجائے گاویسے بھی بے چارے کہاں مخمل پرسوتے تھے۔ہمیشہ خاک وخون میں ہی غلطاں رہے ہیں ۔ ہمارے ہندوراشٹرمیں اپنی شناخت کرائوکہاں سے آئے ہوتم !صدیوں قبل تم توگھس بیٹھ کرکے یہاں آئے ہو۔تم تومحمودغوری اورمحمودغزنوی کی اولادمیں سے ہو!یہ بتائو کس بنیادپہ یہاں ہندوراشٹر میں رہ رہے ہو۔ مذہب کو سخت بنانے اور اسکو کئی پیچیدہ شرائط کے ساتھ تابع کرنے کی غرض سے ملک کی آٹھ صوبائی حکومتوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، اروناچل پردیش، چھتیس گڈھ، گجرات، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ ااور جھارکھنڈ نے ابھی تک اسمبلیوں سے باضابطہ قوانین منظور کروائے ہیں، ان کا ہدف خاص طور پر دلت ہیں، جن کے متعلق اونچی ذات کے ہندئوں کو ہمیشہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ وہ کہیں ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان یا عیسائی نہ بن جائیں۔مگرمسلمان کوجبراََمرتدبنانے پرکوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے ۔یہ صرف ہریانہ کی بات نہیں بلکہ 2014ء سے تواترکے ساتھ بھارتی ریاستوں میں ایسے کئی سانحات پیش آئے کہ جب مسلمانوں کوجبری طورپرمرتدبنایاگیاجس کی ایک لمبی فہرست ہے اس مختصرکالم میں ممکن ہی نہیں کہ اسے سمویاجاسکے۔