کسی کی نیند اڑی اور کسی کے خواب گئے سفینے سارے اچانک ہی زیر آب گئے ہمیں گماں نہ ہوا اک ذرا سی غفلت سے ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے جی بالکل درست ضمنی الیکشن ہیں بڑے بڑے برج الٹ گئے۔بلا شیر پر برسا۔پی ٹی آئی کی پندرہ نشستیں اور ن لیگ کی چار۔ پی ٹی آئی ایک زندہ حقیقت کا نام ہے اور اب عمران کے علاوہ بھی بہت کچھ وجود پا چکا ہے۔بہرحال مجھے فخر ہے کہ اس تجزیہ پر معروف شاعر اعجاز کنور راجہ نے کہ خوشی ہوئی کہ غیر جانبدار صحافت اب بھی ہو رہی ہے مقصد بات کرنے کا یہ کہ مجھے جو کچھ دکھائی دے رہا تھا یہی کچھ تھا اور اس نتیجہ کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے یہ کوئی غیر منطقی نہیں: ہمیں ہونا تھا رسوا ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی تب بھی کہا تھا کہ خان صاحب کو مدت پوری کرنے دیں کہ وہ اپنے کئے کا خود حساب دیں گے۔مگر بات کچھ اور تھی کہ یکایک آگ اور پانی کا ملاپ ہوا‘شیر اور بکری سچ مچ ایک گھاٹ پر آ گئے بلکہ ایک کھرلی پر آ گئے۔ ہمارے نادان دوست یہ کہتے ہیں کہ ہم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرنے لگے۔ نہیں جناب بات انصاف کی حق کی اور قانون کی کریں گے۔عدم اعتماد کی ہم نے مخالفت کی۔یہ الگ بات کہ عمران خاں کے لوگوں نے بھی غلطیاں کیں پھر خط کا معاملہ آ گیا وہی جو اکبر الہ آبادی نے کہا تھا’’شہر میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا‘‘ میں دل کی گہرائیوں سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ اصل بات امریکہ دشمنی کی ہے شاید یہ بات صرف پاکستانیوں کے نہیں بلکہ سارے مسلمانوں کے دلوں میں راسخ ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے ۔ سب لوگ کہتے رہے کہ یہ ڈرامہ ہے مگر یہ ڈرامہ ایسا چلا کہ بس کچھ تو ضرور تھا کہ جس کی پاسداری تھی ہم سازش اور مداخلت کے چکر میں پڑے رہے مگر ان کی یہ بات سب کے دل کو لگی کہ نہیں غلامی نہیں۔آزاد خارجہ پالیسی کیوں نہیں؟ ہم کوئی غلام ہیں؟ حالات اس وقت یک و بدل گئے جب متحدہ حکومت نے آ کر ستیا ناس کا سوا ستیا ناس کر دیا جو قیمتیں ساڑھے تین سال میں بڑھیں تھیں وہ تجربہ کار لوگوں نے دو ماہ میں بڑھا دیں تب کھلا کہ بازو مروڑنے والا تو آئی ایم ایف ہے۔یہ بھی درست کہ عمران خاں نے معاہدے کئے تھے مگر جواب یہ کہ پھر آپ اسے اپنے معاہدے نبھانے دیتے۔ایک اور بات یہ بھی ہے آپ زیر دام آ گئے: پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے ن لیگ والے تو مفت میں مارے گئے۔وہ سمجھتے تھے کہ پنجاب تو ان کا ہے ویستے تھا بھی اس میں شک نہیں مگر آپ کا کردار بدلا تو ووٹر بھی بدل گئے انہوں نے دیکھا کہ آپ تو ایسے حکومت میں آئے جیسے کوئی بھوکا دسترخوان پر پل پڑتا ہے۔آپ کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ ان چار سال میں ایک اور نسل جوان ہو چکی ہے انہیں عمران خاں کا بیانیہ بھا گیا دوسری طرف شہباز شریف کی بدن بولی اور گفتگو ان کی بے چارگی اور عدم اعتمادی تھی امریکہ کے لئے جذبات۔یہ کم از کم نئے خون کے لئے قابل برداشت نہیں: تمہارے ساتھ رہنا ہے مگر ایسے نہیں رہنا تمہیں گر کچھ نہیں سننا ہمیں بھی کچھ نہیں کہنا ن لیگ کے لئے مشکلات بڑھتی گئیں یہ جو منحرف لوگ تھے جنہیں عرف عام میں لوٹے کہتے ہیں جن کے ضمائر اچانک جاگے تھے ن لیگ کو بھی لے ڈوبے۔ہم نے تب بھی لکھا تھا کہ ان منحرف ارکان کو استعفیٰ دینا چاہیے پھر پتہ چلا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔وہ پتہ انہیں اب چل گیا ن لیگ والوں کے اپنے ووٹر بھی ان سے منحرف ہوئے کہ آپ کل تک علیم خاں اور جہانگیر ترین کو ڈاکو اور چور کہہ رہے تھے آج ان کے در دولت پر حاضری دے رہے ہو۔وہ ان لوگوں کو کیوں سپورٹ کریں جو سیاسی میدان میں ان پر مقدمے تک کروا چکے ہیں۔یہ تو ایسے ہی ہوا کہ کوئی کسی ڈوبتے ہوئے کو بچانے کی کوشش میں خود ڈوب جائے جنازے بہت بھاری ہوتے ہیں۔ہمارے دوست زاہد فخری کا شعر ہے: اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ہارا بدن فخری کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کاندھا نہیں دیتا ایک مرتبہ پھر میں یہ بات لکھوں گا کہ پی ٹی آئی والوں کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ایک تہذیب اور شائستگی اور رکھ رکھائو یہ بات بہت اچھی ہے اور جمہوری رویہ بھی ہے کہ ن لیگ نے شکست تسلیم کر لی اور انہوں نے اپنی خامیوں کی طرف نظر کرنے کا اعلان کیا ہے اور پی ٹی آئی والے کسی خوش فہمی میں بھی نہ رہیں کہ یہ ضمنی الیکشن جیت لیا تو آنے والا بڑا انتخاب بھی جیت جائیں گے۔ایسا نہیں ہے ن لیگ کا ایک ووٹ بنک ہے وہ کسی دوسرے کی لڑائی لڑنے سے گریزاں ہوں گے پی ٹی آئی نے تو اپنی بقا کی جنگ لڑی اور انہیں تنکے کا سہار تھا۔اب وہ تنکا ان کی آنکھ کا شہتیر ن بن جائے پرویز الٰہی کے فریکچرڈ بازوں سے مانگی دعا قبول ہو گئی۔ اب خان صاحب کی یہ بات دوسرے کو خوامخواہ چڑھانے والی ہے کہ انہوں نے ریاستی مشینری اور الیکشن کمیشن کو شکست دی۔سارے منظر نامے میں سب کچھ پرامن اور غیر جانبدار نظر آیا اس کا نتیجہ بھی سامنے آ گیا دھاندلی کا واویلا تو شاید ان کو خبردار کرنے کے لئے یا ہارنے کے بعد کے جواز کے طور پر تھا بہرحال اپنے حق میں نتیجہ آئے یا عدالت کا فیصلہ تو سب اچھا ہے مخالف آئے تونا منظور۔اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ ہم کیوں کہتے تھے کہ قومی اسمبلی میں استعفے دینے کی ضرورت نہیں تھی شاید کچھ اور ہی منظر ہوتا۔اچھی بات یہ کہ مسابقت بڑھے گی اور خان صاحب یقین کر لیں کہ جمہوری نظام ایک اپوزیشن بھی ہوتی ہے جو حکومت کو صراط مستقیم پر رکھتی ہے آخر میں ڈاکٹر خالدہ انور کا شعر: جو مڑ کے دیکھا وہ منظر کہاں گمان میں تھا تمہارے ہاتھ میں خنجر کہاں گمان میں تھا