عمران خان کے وزیراعظم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے، پاکستان تحریک انصاف اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والی ہے، اور یہ اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان عملی طور پر دیوالیہ ہورہا ہے یا دیوالیہ ہو چکا ہے،اقتصادی مسائل اس حد تک دگرگوں ہیں کہ کوئی جادوگری بھی کام نہیں آ سکتی، عمران خان اور پاکستان کو بیرونی دنیا سے پہلی مبارک باد جمائمہ گولڈ اسمتھ کی جانب سے ملی، لیکن یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ عمران خان امریکہ سمیت کسی سامراجی طاقت کی چوائس نہیں تھے، ان کی جلد باز طبیعت کے باعث اندرونی اور بیرونی طاقتیں ان سے خائف رہتی ہیں، عمران خان کو عالمی قوتوں کو قائل کرنا ہوگا، اس کام کیلئے جمائمہ اور گولڈاسمتھ خاندان ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔ عمران خان نے ایک منظم مافیا کا سارا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ہے لیکن اس بوجھ کو عوام کے سوا کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہیں بانٹے گا، شاید اسی لئے لوگوں نے انہیں دوسری کسی بھی بڑی جماعت کا مرہون منت نہیں رکھا،وہ آسانی کے ساتھ ایک مضبوط حکومت بنا سکیں گے، لیکن انہیں مکمل رواداری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ دو بڑی سیاسی حقیقتیں ہیں، بلاول بھٹو کو ان کے اپنے پہلے ملک گیر تعارفی دورے نے بھٹوز کا وارث بنا دیا ہے اور عمران خان ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بعد دوسرے قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں، نواز لیگ تین دہائیوں کی حکمرانی کے باوجود آج تک صرف پنجاب کی پارٹی ہے، اور اب پنجاب نے بھی اسے مسترد کر دیا ہے۔ ن لیگ بارہ گھنٹوں کے اندر اندر عوام نے کیسے سمیٹ دی؟ ن لیگ کی عبرتناک شکست کی کیا کیا وجوہات ہو سکتی ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ شاید ہزار خرابیوں کے باوجود ن لیگ سے قوم نجات نہ پا سکتی، اس کی شکست صرف اور صرف ایک نکتے پر مرکوز ہے اور وہ ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیس سال بعد یہ پہلی بار ہوا کہ بیلٹ باکس سے اتنے ہی ووٹ نکلے جتنے ڈالے گئے ۔ عمران خان کو پورے تحمل ، برداشت اور سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اگر انہوں نے دیر تک چلنا ہے، وہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ کو برداشت نہیں کر سکتے، انہیں اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اندرونی سیاست کے بازار کو ٹھنڈا رکھنا پڑے گا، ان پر الیکشن کے حوالے سے بھی سو الزامات لگیں گے، انہیں اپوزیشن کے ہر الزام پر کھلے دل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، الزام در الزام کا راستہ بند کرنا ہوگا، ان پر بھری ذمہ داری آن پڑی ہے اور جس شخص کو بھی عزت اور منزلت ملتی ہے اس کے لئے اتنے ہی بھاری مصائب بھی سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ عمران خان کے لئے سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ وہ عوام کو مہنگائی کی لہر سے کیسے بچاتے ہیں، ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کیسے اعتدال پر لا سکتے ہیں، ہمارے علم میں ہے کہ تمام شعبوں میں ان کی ٹیمیں کئی مہینوں سے ہوم ورک کر رہی تھیں، اب وقت امتحان ہے اور امتحان لینے والی قوت کا نام ہے عوام۔۔۔۔۔ عوام اور تاریخ کے حوالے سے یاد رکھا جائے کہ انکی عدالت میں معافی نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔ میں راولپنڈی کے عوام کو چوہدری نثار نامی امیدوار کی ناکامی کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ،اور ان لوگوں کی توجہ کا بھی طالب ہوں جو کہہ رہے تھے کہ جیپ گروپ عمران خان کی حمایت کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے بنوایا ہے، اسٹیبلشمنٹ کو بھی مبارک کہ وہ ایک بڑی تہمت سے بچ گئی، پولنگ کا وقت ختم ہونے سے نوے منٹ پہلے تمام چینلز پر بریکنگ چلی کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ایک ہنگامی پریس کانفرنس کر رہی ہے، اس ٹکر کو دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ کہیں ن لیگ آخری منٹوں میں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے تو نہیں جا رہی، جب پریس کانفرنس ہوئی تو مشاہد حسین سید نے کہا وہ انتخابی عمل سے مطمئن ہے اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پولنگ کا وقت ایک گھنٹہ بڑھا دیا جائے، ہم نے بھی ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر ن لیگ کے اس مطالبے کو مان لینے کی درخواست کی چونکہ الیکشن کمشن پہلے ہی ایک گھنٹہ بڑھا چکا تھا اس لئے ان کا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا، البتہ یہ ضرور ہوا کہ ہم لوگوں کی درخواست پر ان تمام لوگوں کو بھی ووٹ دینے کا حق دیدیا گیا کہ پولنگ اسٹیشن کی حدود سے باہر کھڑے ہونے والے ووٹروں کو بھی حق رائے دہی دیدیا گیا، پولنگ ختم ہوجانے کے بعد شہباز شریف کی جانب سے انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کا اعلان ہماری سمجھ سے بالاتر تھا خواجہ سعد رفیق کی شکست پر افسوس ہوا، میرا تجزیہ یہی تھا کہ ان کا اس بار جیتنا مشکل ہوگا لیکن ان کے حامیوں کی دلیل تھی کہ انہیں کوئی نہیں ہرا سکتا کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خاص آدمی ہیں۔ ن لیگ کی تیس سال بعد شکست سے ہزاروں لوگوں کو نقصان ہوگا اور ان ہزاروں میں وہ بہت سارے صحافی اور تجزیہ نگار بھی شامل ہیں جو ٹی وی اسکرینوں پر ن لیگی کارکنوں کا کردار ادا کیا کرتے تھے، اور کالم لکھا کرتے تھے ، مجھے اور تو کسی کے بے روزگار ہوجانے کا دکھ نہیں صرف تین چار دانشوروں پر بہت ترس آ رہا ہے، سوچ رہا ہوں کہ ان بے چارے غریبوں کے گھر وںکا چولہا بند ہوجائے گا، اور ان کے کفیل مالی مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔ ایک اور بھی چیف فنکار صحافی ہیں جو ضیاء الحق سے نواز شریف تک سب کے قصیدہ خوان رہے ان کو بھی انشاء اللہ عمران خان کی حکومت میں نوکری مل جائے گی کیونکہ وہ تنخواہ نہیں لیتے تنخواہ خود پیدا کر لیتے ہیں۔ پنجاب میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے بہت سارے اچھے کام کئے، ان میں ایک کام مختلف شعبوں سے وابستہ فنکاروں کی مالی امداد کا بھی منصوبہ تھا، یہ کام شہباز شریف صاحب نے میری درخواست پر کیا تھا، میں ان کا ممنون ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ شاہ محمود قریشی بنیں یا علیم خان وہ ایسے قابل ستائش کاموں میں شہباز شریف کی پیروی کریں گے۔