روزنامہ 92نیوز کی خبر کے مطابق کمرشل اتاشیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کی نشاندہی کے باوجود حکومت 25نااہل کمرشل اتاشیوں کے خلاف کارروائی نہ کر سکی۔ ورلڈ بنک کی تجارت کے حوالے سے ’’کاروباری آسانیوں‘‘ کی درجہ بندی میں پاکستان کا 190ممالک کی فہرست میں 144واں نمبر ہے ۔ غیر جانبدار مالیاتی اداروں کی جانب سے رواں برس پاکستان کا تجارتی خسارہ 56ارب ڈالر تک بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کے معاشی جادوگر وزیر خزانہ شعبدہ بازی کے ذریعے روپے کی قدر 110ڈالر سے 90ڈالر تک لے آئے ۔ اسحق ڈار کے عدالت سے مفرور ہوتے ہیں مسلم لیگ ن کی مصنوعی ترقی کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور ڈالر کو پر لگ گئے۔ سابق حکومت کی معاشی ڈنگ ٹپائو پالیسی اور اقربا پروری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے پاکستان کی تجارت کو متوازن رکھنے کے نام پر یورپی ممالک میں اپنے چہیتوں کو کمرشل اتاشی مقرر کیا تھا جو سرکاری خزانہ بھرنے کی بجائے لوٹ مار میں مصروف رہے۔ اس کاثبوت نیو یارک میں پاکستان کے کمرشل اتاشی کے دوہری اکاموڈیشن کی مد میں 1کروڑ 80لاکھ وصول کرنے کا معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ جانا ہے ۔یہاں تک کہ حکومت کو اپنے ہی مقرر کردہ کمرشل اتاشیوں کی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے کارکردگی جانچنے کے لیے کمیٹی بنانا پڑی جس نے 25ممالک کے اتاشیوں کی نااہلی کا پول کھول دیا مگر سابق حکومت نے اپنی بنائی کمیٹی کی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ اب نگران حکومت کی طرف سے بھی صرف نظر برتا جا رہا ہے بہتر ہو گا حکومت سرکاری خزانے پر بوجھ کمرشل اتاشیوں کے خلاف فوری اقدامات کر کے اور ان کی جگہ اہل افراد کا میرٹ پر تقرر کیا جائے تاکہ تجارتی خسارے کو قابو میں رکھنا ممکن ہو سکے۔