وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قومی اہمیت کے متعدد فیصلے کیے گئے تا ہم ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت عام آدمی کے دل کی آواز ہے جس پر تاخیر سے سہی مگر حکومت نے توجہ دی ہے۔ کابینہ نے نیب کی کارروائیوں سے شکوہ کناںتاجروں کے مطالبے پر اعلان کردہ کمیٹی کا فیصلہ بھی واپس لے لیا ہے۔ اس کی جگہ نیب کو کاروباری برادری کو لاحق مسائل سے نمٹنے کے لیے سفارشات بھجوا دی گئی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں دے گی۔ پاکستان کے سیاسی نظام کی یہ خامی ہے کہ یہ عام آدمی کی خواہشات اور ضروریات کی بجائے پریشر گروپوں کی مرضی سے کام کرتا ہے۔ سابق حکومتوں میں تاجر برادری اقتدار کا حصہ رہی۔ ایک مقتدر گروہ کے طور پر تاجر نمائندوں نے ملک میں تجارت دوست اقدامات کا مطلب صارفین کا استحصال سمجھ لیا۔ تاجر خاندان حکمران بنے۔ یہ دنیا بھر کا دورہ کرتے ہیں، نظام ہائے معیشت و کاروبار کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے نظام اور روایات کی تحسین کرنے والے یہ طاقتور جب خود حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو مغرب کے ترقی یافتہ کاروباری اصول پاکستان میں رائج کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ موجودہ حکومت کو مشکل حالات میں اقتدار ملا۔ برآمدات میں صنعتی پیداوار کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ زراعت کا شعبہ بری طرح نظر انداز دکھائی دیتا ہے۔ کسان غلے اور پھلوں میں ملک کو خود کفیل بنا چکے ہیں لیکن اضافی پیداوار کی برآمد کا نظام خرابیوں سے بھرا ہوا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ تاجروں کی بجائے ان سیاستدانوں نے بیرون ملک سے رقوم کی منتقلی کی جو خود کو کاروباری ظاہر کرتے رہے لیکن ایف بی آر ریکارڈ میں ان کی فراہم کردہ تمام معلومات جھوٹ اور جعلسازی کا مرقع نظر آتی ہیں۔ غیر شفاف کاروباری عمل نے پاکستان کے دشمنوں کو موقع دیا ہے کہ وہ رقوم کی منتقلی کے معاملات پر سوال اٹھا کر پاکستان کے لیے عالمی سطح پر مسائل پیدا کر سکیں۔ گزشتہ دو اڑھائی برسوں سے ایف اے ٹی ایف پاکستان کے پیچھے پڑا ہے۔ بھارت پاکستان کے مالیاتی اور بنکنگ نظام پر شکوک پیدا کر کے گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ اس موقع پر حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ تاجروں کے ناجائز مطالبات کو تسلیم کرے۔تحریک انصاف کو عوامی حمایت ملنے کی سب سے پہلی وجہ احتساب کے عمل کے متعلق اس کے وعدے ہیں۔ حکومت نے ایک اچھا فیصلہ کیا کہ منڈیوں میں آڑھتی یا مڈل مین کا کردار ختم کر دیا۔ اب کاشتکار اپنی پیداوار خود فروخت کر سکتے ہیں لیکن یہ فیصلہ کافی نہیں اس پر عملدرآمد ہونا بھی ضروری ہے۔ کسان جو پیداوار دو سو روپے من منڈی میں فروخت کرتا ہے وہ ایک سو سے ڈیڑھ سو روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے۔ بینگن، شلجم اور پالک جیسی سبزیاں خریدار کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ ایک ہی شہر کے مختلف علاقوں میں پھلوں، سبزیوں اور آٹے کے مختلف نرخ ہیں۔ ماہانہ اخراجات پر پڑنے والے دبائو نے عام آدمی کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ حکومت کو ایک سال ہو گیا مگر نہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں متحرک ہوئیں، نہ اشیائے خورونوش کا نظام ہموار بنایا جا سکا۔ اشیائے خورونوش کی وافر دستیابی کے باوجود ان کا نہ ملنا یا مقررہ قیمتوں سے زائد پر فروخت ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ضلعی اور صوبائی انتظامیہ عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ ملک کے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کا وفد حالیہ دنوں وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف سے ملا ہے۔ تاجر رہنمائوں کا کہنا تھا کہ وہ ٹیکس نظام کے خلاف سیاسی و عسکری قیادت سے بات کریں گے۔ ان ملاقاتوں کی تفصیل بتاتی ہے کہ تاجروں نے سارا زور نیب کے خلاف شکایات پر لگا دیا۔ ان کی شکایات کے ازالے کے لیے چیئرمین نیب نے بھی سنجیدہ کوشش کی۔ حکومت نے تاجروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا جو کسی تاجر کے خلاف نیب کی کارروائی کا جائزہ لے کر اس کے درست یا غلط ہونے کا تعین کرتی۔ اس فیصلے پر عوام نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ تاجر حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں اور معاشی نظام میں اپنی اہمیت کے پیش نظر وہ اصلاح احوال کی کسی حکومتی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ تحریک انصاف کا ووٹر عام آدمی ہے۔ ایسا عام پاکستانی جو اقربا پروری، تاجرانہ سوچ کے لالچ اور بدعنوانی میں حصہ دار نہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھی ہے۔ تازہ رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ اگلے سال تک نئی سرمایہ کاری نہیں آئی تو مہنگائی کی شرح 13فیصد تک رہنے کا امکان موجود ہے۔ وزیر اعظم ایسے عام پاکستانیوں کے لیے خصوصی درد رکھتے ہیں لیکن ان کے کچھ رفقاء اور سرکاری مشینری اس سرگرمی سے عوامی مشکلات کو حل کرنے میں تاحال سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع کمانے والوں سے نمٹنا حکومت کا کام ہے۔ یہ لوگ عشروں تک اپنا بھیانک کھیل کھیلتے ہوئے قانون، حکومت اور ضابطوں سے بے خوف ہو چکے ہیں۔ حکومت نے خارجہ تعلقات کشمیر اور معاشی بحالی کے معاملات کو پہلے دن سے ترجیح بنایا۔ وہ لوگ جو ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں ان سے صرف نظر کیا گیا۔ آج اپوزیشن جماعتیں مہنگائی کو احتجاجی ایجنڈے میں شامل کر رہی ہیں۔ حکومت اشیائے خورونوش کے معاملے پر مؤثر اقدامات کرے تو عام آدمی کی شکایات کم ہو سکتی ہیں اور حکومت مخالف قوتوں کے لئے اسے ورغلانا ممکن نہیں رہے گاؒ