مینار پاکستان پر حزب اختلاف کی قوت کا مظاہرہ کتنا کامیاب رہاا ور کتنا ناکام ،یہ لاکھوں لوگوں کا ٹھاٹے مارتا سمندر تھا یہ کوئی چھوٹی موٹی موج،یہ بھرپور جلسہ تھا یا محض جلسی ۔۔۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا، حکومت اسے ناکام شو قراردے کر پھبتیاں کس رہی ہے اور اپوزیشن اسے بھرپور جلسہ کہہ کرمسلز دکھارہی ہے۔ جلسہ نہ ہوگیا اندھیرے میں ہونے والی لڑائی ہوگئی مار کھانے والے کا پتہ چل رہا ہے نہ پٹائی کرنے والے کا علم ہو رہا ہے۔ دونوں ہی مونچھوں کو تاؤ دے کر رستم زماں کا پوز دے رہے ہیں اور بیچارہ مینار پاکستان چپ چپ ہکا بکا کھڑا ہے کہ کیسے کیسے لوگ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھستے چلے آتے ہیں آپ یہاں مینار پاکستان کی مدد کریں اور مجھے یہ کہہ کراپنے مدعے پر آنے دیں کہ جس گرمجوشی اور حاضری کی لاہوریوں سے توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی ،ڈرون کی مدد سے عکس بند کئے گئے مناظر جاتی امراء بلاول ہاؤس او ر مولانا صاحب کے لئے زیادہ خوش کن نہیںہیں۔ میں جلسے کی کامیابی اور ناکامی کے بھاری پتھرکو ہاتھ لگائے بغیر دنیا کی پہلی نظریاتی ،فلاحی ریاست مدینہ کے اولین ایام میں چلتاہوں ،ریاست مدینہ کو قائم ہوئے پانچ بر س ہوچکے ہیں سرکار دو عالم ﷺ حکمت و بصیرت سے اسے آگے لے کر چل رہے ہیں اورمشرکین کو یہی بات تو پسند نہیں یہود اورمشرکین ایک فیصلہ کن معرکے کی تیاری کرتے ہیںوہ ایک بھرپور الائنس بناتے ہیں آس پاس کے قبائل کو ساتھ ملا لیتے ہیں کہ اس بار آر یا پار،امام المجاہدین ﷺ کو جب کفار کے ارادوں کی خبر ہوئی تو انہوں نے صحابہ کرام مشاورت کے لئے طلب کر لئے ان میں حضرت سلمان فارسی ؓ بھی تھے انہوںنے کہا کہ جب فارس میں اس طرح کی صورتحال درپیش ہو تو ہم اپنے ارد گرد خندق کھود لیتے ہیں ،سرکار ﷺ کو خندق والا یہ اچھوتا آئیڈیا پسند آیا اور وہ صحابہ کرام کے ساتھ خندق کی کھدائی میں لگ گئے صحابہ کے دس دس کے گروپ بناکر انہیں چالیس چالیس ہاتھ خندق کھودنے کا حکم دے دیا گیاسب کام میں لگ گئے اور ایسا نہیں ہوا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے محض نگرانی پر ہی اکتفا کرکے موٹیویشنل اسپیکر کا فریضہ سنبھال لیا ہو وہ خود بھی صحابہ کے ساتھ اس کام میں شریک ہوگئے اب زرا مدینہ کی سخت پتھریلی زمین کوذہن میں رکھ کر اس مشقت کا سوچیںاور یہ بھی نہ بھولیں کہ ان دنوںکھانے پینے کی اشیاء کی خاصی کمی تھی اہل مدینہ کی عادت تھی کہ وہ فاقوں میں پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے تاکہ بھوک کی شدت سے دوہرے نہ ہوجائیں ایسی ہی کسی وقت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت طلحہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکائت کی اور پنے پیٹ پر بندھے ہوئے پتھر بھی دکھائے یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اپنا شکم مبارک کھول کر دکھایا تو وہاں بھی دو پتھر بندھے ہوئے تھے،جب سپاہیوں نے اپنے کمانڈر کے پیٹ پر بھی بندھا ہواپتھر دیکھا تو سارے سوال شکوے صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ،یہ احساس ہی کافی تھاان کا کمانڈر بھی کچھ الگ نہیں جو بھوک انہیں پریشان کر رہی ہے وہی بھوک ان کے کمانڈر کو بھی تنگ کر رہی ہے یہ احساس کہ کمانڈر ہمارے جیسا نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ ہے نے فورس کو چارج کر دیاا ور پھر ان بھوکے پیاسے مزدوروں نے کارنامہ کر دکھایاتین ہفتوں میں خندق تیا ر ہوگئی۔ ا س واقعے میں سیکھنے سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے بہت سے زاویے ہیں لیکن ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی مشن کے لئے صرف قول و قرار نہیں عمل بھی ضروری ہوتا ہے جو تحریک عمل سے ملتی ہے۔یہ انسانی فطرت ہے اگر گنج پن کا علاج کرنے والا طبیب خود بالوں سے محروم ہو تو پہلا سوال اسی کے گنجے پن پر ہوگا۔ مینار پاکستان پر حزب اختلاف نے جمہوریت کو سارے دکھوں کا مداوا قرار دیا ہے سب ہی نے ’’ووٹ کو عزت ‘‘ دینے کی بات کہی ہے لیکن میں ان کی دھواں دھار تقاریر سے بالکل متاثر نہیں ہوا کہ جو لیڈر اپنی جماعتوں میں جمہوریت کے لئے جگہ خالی نہیں کرتے وہ جمہوریت کی دہائی کیسے دے سکتے ہیں؟ عجیب تماشہ ہے کہ جمہوریت کی سب سے بڑی دعوے دار پیپلز پارٹی میں سرے سے ہی جمہویت نہیں،ووٹ کو عزت دو کا نعرہ خاصا مقبول ہے لیکن مسلم لیگ ن میں بھی سیاسی شہنشائت رائج ہے ،پیپلز پارٹی میں قیادت بھٹو خاندان کا حق ہے تو مسلم لیگ ن میں نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو جانشین قرار دے دیا ہے،سوال یہ ہے کہ یہ جماعتیں جمہور ی ہیں تو یہ جانشینیاں کس لئے؟ پاکستان میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو چھوڑ کر دوسری کوئی قابل ذکر جماعت اس موروثیت سے محفوظ نہیں ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتی کہ موروثیت کے ہوتے ہوئے جمہوریت کی بات کیسے اور کس منہ سے ہو سکتی ہے ؟ لاہور کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اینڈ آلٹرنیٹوزکے محقق ڈاکٹر علی چیمہ نے اس بیماری موروثی سیاست پر تحقیق کرکے ہمارے سامنے آئینہ رکھ دیا ہے ان کی ریسرچ کے مطابق انیس سو چھیانوے میں امریکہ کی سیاست میں موروثی سیاست کا حصہ چھ فیصد اور بھارت میں 2010ء تک 28فیصد تھا جب کہ ہمارے یہاں یہ شرح 53فیصدتھاجو کہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لئے ناقابل قبول ہے اسی تحقیق میں پنجاب کے 400خاندانوں کا بھی ذکر ہے جو پشت درپشت سیاست میں چلے آرہے ہیں یہ مسلسل ایسی پالیسیاں اور قوانین بناتے ہیں جس سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میںیہ مزید طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں اس ریسرچ کے مطابق 1985سے 2008تک کے الیکشن میں ہر حلقے میں پہلے تین امیدواروں کی دو تہائی تعداد موروثی یا سیاسی خاندانوں سے تھا۔2008ء کے انتخابات تک قومی اسمبلیوں کی نصف تعداد انہی چھاتہ برداروں کی تھی جنہیںمیرٹ کا قتل کرکے براہ راست قیادت کا اہل چنا گیا۔اب بھی یہی چلن ہے یہی وطیرہ ہے جمہوریت بس دوسروں کے لئے ہے بات صاف ہے کہ مریم ہوں یا بلاول ،اچکزئی ہوں یا مینگل اور یا پھر مولانا صاحب ان سب کا احترام اپنی جگہ مگر جب ان کے منہ سے جمہویت کاذکر سنتاہوں تو میری ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔