یہ جو ایک شخصیت الطاف حسن قریشی ہمارے درمیان موجود ہیں یہ صرف ایک شخص ‘ ایک آدمی‘ ایک صحافی نہیں بلکہ پورا ایک عہد اپنی ذات میں سموئے ہوئے ہیں۔ بغیر کسی مبالغہ آرائی کے ایک ہزارداستان کا نام الطاف حسن قریشی ہے۔ داستان تو آپ سمجھتے ہیں نا جس میں کہانی در کہانی، آئینہ در آئینہ، عکس درعکس، سفر در سفر ایک مسلسل مسافت ہوتی ہے۔ یہ مسافت جو کبھی دریائوں اور سمندروں میں پڑائو ڈالتی ہے تو کبھی گھاٹیوں اور صحرائوں سے گزرتی ہے۔ داستان کا ایک مرکزی کردار ہوتا ہے جس سے کئی دوسرے کردار اور کئی دوسری کہانیاں پھوٹتی اور آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ الطاف حسن قریشی میرے عہد میں اس ہزار داستان کے ایک ایسے ہی افسانوی کردار ہیں۔ یقین نہ آئے تو کتاب ’’الطاف صحافت‘‘ پڑھ لیں۔ اس کتاب کو معروف کالم نگار اور ابلاغیات کے استاد جناب طاہر مسعود نے نہایت محبت سے مرتب کیا ہے اور کیا خوب خراج پیش کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایک تاریخ مرتب کر دی ہے۔کوئی بھی شخص الطاف حسن کے نظریات سے اختلاف کر سکتا ہے لیکن اس رائے سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں اردو صحافت اور صحافیوں کی ذہنی تربیت کرنے کے حوالے سے دیکھیں تو الطاف حسن قریشی کے مقابل کوئی اور دکھائی نہیں دیتا ہے۔ مجیب الرحمن شامی سے لے کر سجاد میر تک ہارون الرشید سے لے کر وسعت اللہ خان تک۔ طاہر مسعود سے سلمیٰ اعوان تک۔ عامر خاکوانی سے سعدیہ قریشی تک ایک نسل سے دوسری نسل کے سفر تک۔ الطاف حسن قریشی ایک استاد کی طرح سبھی کو کچھ نہ کچھ سکھاتے نظر آتے ہیں۔ الطاف صحافت کی ورق گردانی کرتے جائیں۔ ہارون الرشید جیسے نابغہ روزگار کالم نگار بھی اعتراف کرتے دکھائی دیں گے کہ’’یہ کیا کم ہے انہوں نے ہمیں محسوس کرنا‘ لکھنا اور سوچنا سکھایا۔ اظہار کا جو ایک ذرا سا سلیقہ قدرت نے ہمیں بخشا اس میں ان کا حصہ ہے‘‘ ہارون الرشید پانچویں جماعت کے کم سن طالب علم تھے جب اردو ڈائجسٹ کا اجراء 1961ء میں ہوا۔ میں پانچویں جماعت میں تھی جب میں نے اردو ڈائجسٹ اور الطاف حسن قریشی کو پڑھنا شروع کیا۔ کیا مسرت انگیز تحیّر ہے یہ کہ الطاف حسن قریشی کے نام کی اس ہزار داستان کے طلسمی ماحول میں ‘ میں خود کو ہارون الرشید اور مجیب الرحمن شامی جیسے نابغوں کے ساتھ کھڑا دیکھتی ہوں۔ یہی بات جناب طاہر مسعود نے اپنے پیش لفظ میں کہی۔ لکھا کہ الطاف حسن قریشی سے محبت اور تعلق کا معاملہ میرا اکیلے کا نہیں۔ میں نے اس کتاب کے لئے جس سے بھی مضمون کی فرمائش کی اس نے بات اپنے بچپن سے شروع کی۔ ان کے نزدیک اس کتاب کو مرتب کرنا اپنے بچپن کو آواز دینے کی ایک کوشش ہے۔ اور یقین جانیں آج یہ کالم لکھنا بھی مجھے اپنے بچپن کو آواز دینے جیسا لگ رہا ہے اردو ڈائجسٹ ہمارے گھر کے کلچرکا ایک حصہ رہا ہے۔اور آج تک ہے۔ میرے والد صاحب تو ستر کے زمانے سے الطاف صاحب کی تحریریں پڑھتے آئے ہیں اور آج پڑھ بھی رہے ہیں۔ ایم اے انگریزی کے بعد کچھ وقت فراغت میں گزرا تو ایک روز میں نے اردو ڈائجسٹ میں الطاف حسن صاحب کے نام ایک خط لکھا کہ میں کسی انگلش ناول کی اردو تلخیص کرنا چاہتی ہوں۔ اگلے ماہ جواب رسالے میں چھپا ہوا تھا کہ آپ ابھی طالبہ بھی ہیں انگریزی ناول کی تلخیص ابھی آپ نہیں کر سکتیں ساتھ ہی یہ مشورہ بھی تھا کہ گھر میں ٹیوشن سنٹر کھول کر انگریزی پڑھانا شروع کر دیں سچی بات ہے ہمیں یہ مشورہ بالکل اچھا نہیں لگا ہم تو اپنے تئیں ہمینگوے ‘ ٹامس ہارڈی، بائرن اورفالکنر کے مداح تھے اور خود کو اس قابل بھی سمجھتے کہ انگریزی ناول کی اردو تلخیص ہم بآسانی کر لیں گے۔ خیر اگلے برس ہی قسمت ہمیں اردو صحافت میں لے آئی۔ ایک بڑا اخبار، میگزین میں فیچر رائٹر، ایک روز اردو ڈائجسٹ کی ایک تقریب میں جانا ہوا۔ اعجاز حسن قریشی صاحب کی طرف سے دعوت نامہ تھا۔ وہیں الطاف صاحب سے بھی ملاقات ہوئی بچپن سے جنہیں پڑھتے آئے تھے ان سے مل کر ایسے لگا جیسے ہم کسی اپنے سے ملتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک قاری اور لکھاری کے درمیان یہ تعلق کئی برسوں پر محیط تھا۔ پھرجب میں نے 2007ء میں اسی اخبارسے کالم لکھنے کا آغاز کیا تو ایک قاری کی ای میل مجھے آئی جس میں اس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی اردو ڈائجسٹ والے الطاف حسن قریشی سے کوئی رشتہ داری ہے میں مسکرائی اور دل میں سوچا کہ لکھ دو۔ بالکل۔ بڑی قریبی رشتہ داری ہے میں بھی اسی قبیلے سے ہوں جس کی سپہ سالاری کے فرائض الطاف حسن قریشی کئی برسوں سے سرانجام دے رہے ہیں۔ الطاف صحافت کتاب میں اپنے عہد کے نامور صحافیوں، دانشوروں اور ادیبوں کے وہ مضامین اکٹھے کئے گئے ہیں جس میں انہوں نے الطاف حسن قریشی سے اپنے تعلق کو بیان کیا، ان کی صحافتی خدمات پر خراج پیش کیا ہے۔ سب نے اپنے اپنے آئینے سے ایک ہی عکس کو دیکھنے کی کوشش کی ہے نہایت دلچسپ تحریریں ہیں۔ جناب طاہر مسعود اور بی بی سی والے وسعت اللہ خان کے مضامین بہت دلچسپ پیرائے میں ہیں دونوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں شخصیات نے اپنے بچپنے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ان کو یاد کیا ہے۔کم سن طاہر مسعود کے لئے جب وہ ’’اِتے بڑے صحافی‘‘ تھے اور ننھے وسعت اللہ خان کے لئے وہ مدیر مسؤل نہیں’’مدیر مستول‘‘ تھے۔ ایسے ہی الطاف حسن قریشی کے اردو پڑھنے والوں پر اثرات ہیں ۔ اردو صحافت سے جڑے بڑے نام ہوں یا میرے جیسے عام‘ خام سا لکھنے والے سبھی ان کے لئے ایک قطار میں محبت اور عقیدت سے کھڑے ہیں۔ ہارون صاحب نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ الطاف حسن قریشی کی زندگی کئی ادوار میں بٹی ہے، قلم برداشتہ اس کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا! یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ حفیظ کا یہ شعر یہاں جھول کھا گیا۔ یہ نصف صدی سے زیادہ کا قصہ ہے!