چاند جب بام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ دل بھی ہر کام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ گونجتے رہتے ہیں الفاظ مرے کانوں میں تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ ایسے ہی خیال آیا کہ پی ڈی ایم‘ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو کب کی خدا حافظ کہہ چکا ہے یا یوں کہیں کہ عملی اعتبار سے پہلے پیپلز پارٹی اور اے این پی نے طرحداری دکھائی ویسے کچھ عجیب بھی لگتا تھا کہ ن لیگ کی روح و رواں مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے بانکے بلاول کچھ زیادہ ہی شیرو شکر ہو گئے تھے۔ حیرت ہوتی تھی کہ یہ دونوں جماعتیں جو بنیادی طور پر ایک دوسرے کی حریف ہیں، یکجا ہو گئی تھیں۔ اس قدر قریب کہ اپنے دوست عدیم ہاشمی کا شعر یاد آتا: بہت نزدیک آتے جا رہے ہو بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا ایسی قربت اور ایسی دوری! محبت ایسی کہ شہباز شریف زرداری صاحب کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے اور کھمبے کے پول سے الٹا لٹکانے کے آرزو مند ہوں اور پھر اللہ وہ وقت بھی دکھائے کہ زرداری صاحب کو جاتی امرا میں تین درجن اقسام کی ڈشیں پیش کر کے تواضع کی جائے یہ تو کسی محبوب کی ادا کی طرح ہے کہ مہربان ہوئے تو فرق مٹا دیے اور خلاف ہوئے تو پہچانتے بھی نہیں۔ وہ جا رہے ہیں جیسے ہمیں جانتے ہیں۔ اب جب یہ جدا ہو چکے ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ن لیگ کی شدید خواہش تھی کہ پیپلز پارٹی کے بوجھ کو اتار پھینکا جائے ۔شاہد خاقان عباسی کی بدن بولی تو صاف بتا رہی ہے کہ وہ کسی صورت دوبارہ اکٹھے ہونے یا رجوع کرنے کو تیار نہیں: جب توڑ دیا رشتہ ہی اس زلف رسا سے اب لاکھ وہ بل کھایا کرے اپنی بلا سے بات کچھ یوں ہے کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔ویسے بقول اکبر دونوں نے خاک ڈال دی دیدہ امتیاز میں۔ واقعتاً دونوں جماعتوں میں کوئی عملی اختلاف نہیں۔ آپ یقین کیجیے ایک مرتبہ ن لیگ کے بارے ہمارے ایک دوست جو کہ وزیر تھے کہنے لگے یارا اب ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں کچھ فرق نہیں۔جو کام وہ سرعام کرتے ہیں ہم چھپ کر کرتے ہیں۔ اس پر ایک قہقہہ برپا ہوا۔ دونوں جماعتیں اپنی صرف سیاسی روایات اور اقدار کی حامل ہیں۔ ہاں اگر پرانی وضع قطع کو دیکھا جائے تو بلاول نے درست کہا کہ ان کا اے این پی سے خاندانی‘سیاسی اور نظریاتی رشتہ ہے۔ بلاول نے تو ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ ان کی ثقافت پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ وہی موہنجوداڑو والی، جہاں تک نظریاتی شناخت کی بات ہے تو وہ ن لیگ کے پاس بھی تھی۔ مگر اب وہ قائد اعظم والی مسلم لیگ کہاں کہ جس کے پیچھے نظریات تھے جس کا علم مجید نظامی نے بھی اٹھایا تھا بلکہ حمید نظامی کہیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ بڑی تکلیف ہوتی ہے جب یہ سوچیں کہ اب نظریاتی دور کب کا لد چکا۔ اب مفادات رہ گئے ہیں۔ یہ کوئی فلاسفی کا سوال نہیں۔ ہر چیز آپ کے سامنے ہے۔ اپنے جانی دشمنوں کو بھی گلے لگا لیا جاتا ہے۔وہی محاورہ کہ وقت پر گدھے کو بھی باپ ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے ۔جب یہ لوگ ملتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ ایک دوسرے کے لئے ناگزیر تھے اور جب منہ موڑتے ہیں تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں ایسے ہی شعر یاد آ گیا: وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے ایسے ہی پیپلز پارٹی کو شک پڑا کہ ان پر قسمت مہربان ہے اور وہ پی ٹی آئی کی آئندہ خالی ہونے والی جگہ پر کریں گے اور یہ معجزہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ پنجاب میں بھی کوئی پوزیشن بنا لیں یعنی ان کے لئے وہاں جگہ خالی کر دی جائے۔ ایسے ہی جیسے ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھ جاتی ہے اور جگہ بن جاتی ہے۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ جب جگہ پر کرنے کے لئے ہو اادھر رش کرتی ہے تو بگولہ بھی بن جاتا ہے۔ بہرحال غلط فہمی سچ مچ ڈالی گئی تھی، انہیں لڈو پر سیڑھیاں نظر آنے لگیں اور وہ بے نیاز ہو گئے کہ لڈو پر بڑا سانپ بھی ہوتا ہے جو آپ کو زیرو پر نہیں تو زیرو کے قریب ضرور لے آتا ہے۔ ہائے ہائے لالچ انسان کو سمجھنے نہیں دیتی۔ حالانکہ یہ تجربہ ان پر کئی مرتبہ بیت چکا: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشا بنا دیا اس کے بعد حمزہ شریف اور شہباز شریف رہا ہوئے تو منظر نامہ بدلنے لگا۔ اس چال کو پی ٹی آئی سمجھ چکی تھی اور اس نے الٹانے کی کوشش کی مگر سچی بات یہ ہے کہ بساط ان کے حق میں نہیں۔ اس میں کسی بھی طاقت کا عمل دخل نہیں۔ یعنی پی ٹی آئی کے خلاف کسی کو کوئی سازش کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔مجھے یہ کہنے دیجیے کہ مریم نواز نے جو آگ لگائی تھی اس پر شہباز شریف پانی ہی ثابت ہو سکتے ہیں۔ پنجاب کے اندر خلفشار ہے۔ آپ لوگوں کو جو مرضی بتاتے رہیںمگر لاہور اور پنجاب کے لوگ جو دو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیںوہ دیکھ رہے ہیں ۔عوامی طاقت کو سمجھنے والے بہت ٹھنڈے اور گہرے ہیں۔ نالائقی کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے۔ دامن پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے سرکتا جا رہا ہے۔ وہ کام بھی کرتے ہیں تو لوگ یقین نہیں کرتے ۔اب دیکھیے اچانک بیٹھے بٹھائے گروتھ ریٹ جو منفی چلا گیا تھا اب چار کے قریب ہو گیا ہے تو سب اس پر شک کر رہے ہیں۔ سارے معاشی اشاریے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی ان کی ترقی کی گواہی دے رہی ہے مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ عوام کی گواہی آخری گواہی ہے۔ ان کی تو بدحالی و بے حالی کے باعث آواز ہی نہیں نکلتی۔بے روزگاری، مہنگائی اور لاقانونیت عام ہے۔ آپ کہتے جائیے کہ ملک کو مشکل سے نکال لیا اگر ملک عوام کا ہے تو پھر عوام تو مشکل سے نہیں نکلے۔ وہی مرغی کا گوشت جو پہلے حمزہ کی سازش کے باعث مہنگا ہوتا تھا، اب چار سو روپے سے نیچے نہیں گر رہا۔ مٹن 1300روپے اور بیف 700روپے۔ کس شے میں غریب کو ریلیف ملا ہے ۔یوٹیلیٹی بلز اسی طرح بڑھتے جا رہے ہیں ۔گھروں کے بجٹ پر کاغذوں پر بنے ہوئے پھول نہیں ہوتے ۔خوشحالی لوگوں کے چہروں سے نظر آنے لگتی ہے۔ ایوب دور کا آج تک لوگ ذکر کرتے ہیں حتیٰ کہ مشرف کے دور میں بھی لوگ معاشی طور پر مطمئین تھے اب کے تو اور شورشیں بھی ہیں۔ ابھی جو نذیر چوہان اور شہزاد اکبر کا ٹکرائو ہے اس نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پاکستان میں کون بندے انجکٹ کر رہا ہے۔ خان صاحب کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ یہ مسلمانوں کے لئے تشویش کی بات ہے، ہم تو ملک کا استحکام چاہتے ہیں۔ ہماری تو دعا ہے کہ خان صاحب کا یہ دعویٰ کہ ملک مشکل سے نکال لیا گیا ہے سچا ثابت ہو جائے۔ الماس شبی کے شعرکے ساتھ اجازت: ہم نے اس سے مانگ لی دو نینوں کی بھیک اس کی مرضی سو کرے جو بھی لاگے ٹھیک