ہم نے ایک زمانے میں روایتی قسم کے ’اُردو بازاری‘ شعری انتخابات کے ردِ عمل کے طور پر 25 سال دورانیے (2005ئ۔1980ئ) کی جدید غزل کا انتخاب ’’غزل آباد‘‘ کے عنوان سے کیا تھا، جس میں دس مستند و باخبر شعرا پر مشتمل ایک جیوری قائم کی۔ اس میں بیس شاعروں کی دس دس غزلیں، اُن کے احوال کے ساتھ شامل کیں۔ اس طرح ہمیں بیٹھے بٹھائے دو سو اچھی غزلوں کا منافع ہو گیا، جس کا سُود ہم آج تک محبتوں اور مزاجوں کی صورت بھگت رہے ہیں۔اس کے بعد پراپرٹی پسند لوگوں کے اس دیس میں ہمارا ’نظم آباد‘ نامی شعری بستی بسانے کا پختہ رادہ تھا لیکن تا حال یہ مترنم منصوبہ دماغ اور دعاؤں کی فائلوں سے باہر نہیں آ سکا ۔ لگتا ہے کچھ شاہین عباس کے اس شعر کی سی صورت ہو گئی ہے: نظم ہو بیٹھا ہوں آہنگِ درُوں کے ہاتھوں نظم کرتے ہوئے اِک نالۂ شب گیر کو مَیں تعلیمی ولادت میں ہمیں اقبال کی ’’بچے کی دعا‘‘ کی گھُٹی اور حفیظ جالندھری کے تخلیق کردہ قومی ترانے کے ساتھ چھٹی مسلسل دی جاتی رہی۔ بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ ’بچے کی دعا‘ جس کا ایک ایک مصرع قوموں کا منشور بننے لائق تھا، اُسے ہم نے زبانی رَٹّے پہ ٹرخا دیا اور دنیا کا خوب صورت ترین قومی ترانہ ہمیشہ نصاب کی ہر کتاب کے آخری صفحے پہ کندہ بلکہ ’پراکندہ‘ نظر آیا، اسے کسی بھی زمانے میں کتاب کا دروازہ کھول کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ کہیں مفہوم سمجھ میں آنے پر یہ نئی نسل کے دلوں میں تراوزو نہ ہو جائے۔ نہ نصاب مرتب کرنے والوں کو اس کی اہمیت کا احساس ہوا اور نہ استاد کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ کتاب سے ایک آدھ قدم باہر نکال کے تھوڑا بیک فُٹ پہ کھیل لے۔ اس کے برعکس کچھ ایسے نام نہاد دانش ور پَلّے پڑ گئے جو اَدبی دَھڑے بندی کی آڑ میں ایسے قومی ترانے کو مشکوک بنانے میں لگے رہے، جس کا عالمی ترانوں میں اسلوب، معنویت اور صوتی حسن کے اعتبار سے دوسرا یا تیسرا نمبر ہے۔ اس کے مقابلے میں پیش کیے گئے جگن ناتھ آزاد اور ذوالفقار علی بخاری کے ترانے دیکھیں تو کچی پکی کی نظمیں لگتی ہیں۔ اسی کم نظری، کم عمری کی بنا پر ہم پرائمری نصاب میں صوفی تبسم کی ’ٹوٹ بٹوٹ‘ اور ’پانچ چوہے‘ اسماعیل میرٹھی کی’عجیب چڑیا‘، ’ غریب کوے‘ اور ’اسلم کی بلی‘جیسی گزارے لائق نظموں پہ دال دلیہ کرتے رہے۔ ذرا بڑے ہوئے تو اس صنف کے بادشاہ نظیر اکبر آبادی سے پالا پڑا، جس نے دانے دُنکے کے لیے بادشاہوں کی قصیدہ نگاری پہ وقت ضایع کیے بغیر آدمی نامہ، بنجارہ نامہ، تندرستی، برسات کی بہاریں، بُور کے لڈو، ریچھ کا بچہ وغیرہ جیسی نظموں کے ذریعے اُس زمانے کے ہندوستانی کلچر کو منظوم کر کے اہلِ دل اور صاحبِ نظر لوگوں کے حافظوں پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش کر دیا۔ ہمارے من مرضی والے اُسے بھی میلوں ٹھیلوںکا شاعر قرار دے کر اپنے موج میلے میں پڑے رہے۔ نہ اس کی لفظیات پہ غور کیا، نہ اُس کی انا کو سراہا، نہ اُس کی اخلاقیات پہ کان دھرا اور نہ ہی اس بنجارے کو باکمال منظر نگاری کی داد دی،کہ وہ اس دور میں گلی کوچوں میں بسنے رَسنے اور مقامی مٹی میں رَلے دَلے لوگوں کے ساتھ لفظی سیلفیاں لیتا رہا، جب بڑے بڑے سورما کوی، چند ٹکوں اور نوابی انگرکھوں کے لالچ میں، نحیف و نزار بادشاہوں کو ’ شہنشاہِ عالم‘ کی غلط فہمی میں مبتلا کرنے میں مصروف تھے۔ وہ ہمہ وقت ان کو یقین دلاتے رہتے کہ آسمان پہ دن بھر آوارہ گردی کرنے والا آفتاب اور رات کو مہ رُخوں سے حسن کی بھیک مانگنے والا مہتاب طلوع ہونے کے لیے آں جناب کے اشارۂ اَبرو کے محتاج ہیں۔ نظیر کی شاعری کا اصل کرشمہ اور شخصیت کا کرزمہ (Charisma) تو اس کے تا دیر غیر مطبوعہ رہنے والے دیوان ہی میں پڑا رہ گیا لیکن اس کی پُرلطف عوامی اور انعامی شاعری سینہ گزٹ کے ذریعے برِ صغیر بھر کی لطیف سماعتوں اور بسیط حافظوں کا حصہ بنتی چلی گئی: یہ ستم دیکھ ذرا منھ سے نکلتے ہی نظیر اُس نے اُس سے، اُس نے اُس سے، اُس نے اُس سے کہہ دیا ایک زمانے میں اُردو نظم کو میر حسن (سحر البیان) دیا شنکر نسیم (گلزارِ نسیم) اور نواب مرزا شوق (فریبِ عشق،بہارِ عشق، لذتِ عشق، زہرِ عشق) کی باکمال مثنویوں نے زندہ رکھا۔ میر حسن جو معروف مرثیہ گو میر انیس کے دادا تھے، اپنی مثنوی کی خوبرو ہیروئن بدر منیر اور اس کے ادبی ذوق کا کیا سادہ اور دِل میں اُترنے والا تعارف کرواتے ہیں: برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن جوانی کی راتیں ، مرادوں کے دِن سرہانے مجلد دَھری اِک کتاب ظہوری ، نظیری کا کل انتخاب اور اس کی نٹ کھٹ سہیلی کا تو دو مصرعوں ہی میں دل نشیں نقشہ کھینچ کے رکھ دیتے ہیں: زبس تھی ستارہ سی وہ دل رُبا اُسے لوگ کہتے تھے نجم النسا اسی طرح حیدر علی آتش کے جواں مرگ شاگرد، پنڈت دیا شنکر نسیم (۱۸۱۱۔ ۱۸۴۳) نے معروف قصہ گل بکاؤلی کو ’گلزارِ نسیم ‘ کی صورت منظوم کیا۔ مثنوی کے ہیرو شہزادہ تاج الملوک کے فراق میں گل بکاؤلی کا جو حال ہوا، اس کے بیان میں دیکھیے وہ کیسی اچھوتی تشبیہات استعمال میں لاتے ہیں: صورت میں خیال رہ گئی وہ ہیئت میں مثال رہ گئی وہ نواب مرزا شوق کی جذبات کو انگیخت کرنے والی رومانوی، ہیجانوی مثنویوں نے تو وہ قیامت ڈھائی کہ کئی نوجوان جوڑوں نے ان اشعار اور احساسات کی رَو میں بہہ کر چھتوں سے کود کر خود کشیاں کرنا شروع کر دیں اور حکومتِ وقت کو انھیں بَین کرنا پڑا، گویا ادبی نظم، ملکی نظم پہ حاوی ہو گئی۔ اُردو ادب کو جدت و شدت و حِدت سے آشنا کرنے والی سرسید تحریک پہ نظر کریں تو سرسید کے دستِ راست اور تلمیذِ غالب، الطاف حسین حالی پہ توقف کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اُردو نظم میں تانیثیت (Feminism) کے اس بانی کی ’ماؤں، بہنوں، بیٹیو! دنیا کی عزت تم سے ہے‘ سے اندازہ ہوا کہ اُردو شاعری میں عورت کا کوئی قابلِ تکریم رُوپ بھی ہے۔ حالی کی ’مدو جزرِ اسلام‘ معروف بہ ’مسدس حالی‘ (1879ئ)کہ جس میں خوابِ خرگوش کے مزے لیتی کچھوا مزاج قوم کو نہ صرف جھنجھوڑا گیا ہے، بلکہ اس کو تو ہم نہایت آسانی سے شاعرِ مشرق کی تمہید، دیباچہ یا آمد کی پیش گوئی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہندوستان بھر میںانیسویں صدی کا شاید ہی کوئی حسّاس مسلم گھرانہ ہو جہاں یہ نظم اشکوں اور آہوں کی سنگت پہ گائی یا پڑھی نہ گئی ہو۔ امتِ مسلمہ کی تیرہ سو سال کی تاریخ، تمدن، ذہنیت، اعمال، زوال، علاج، اِن اوراقِ پریشاں میں سمٹا پڑا ہے۔ سرسید نے سچ کہا تھا کہ ’اگر قیامت کے روز استفسار ہوا کہ زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام بھی کیا ہے تو مَیں برملا کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کے لایا ہوں۔‘ (جاری)