نظمِ ریاست کی طرح نظمِ معاشرت بھی تین بنیادی ستونوں پر استوار ہے ، جس میں مسجد، مدرسہ اور خانقاہ کے ادارے اہم ہیں،اگرچہ جدید سیاسی مفکرین کے مطابق ریاست چار بنیادی عناصر پر قائم ہوتی ہے، جس میں سرِ فہرست آبادی، پھر علاقہ، اقتدارِ اعلیٰ اور حکومت شامل ہیں، آج کل ان چار بنیادی عناصر پر مشتمل انسانی آبادی کو سیاسی زبان میں ایک ملک یا ریاست کہا جاتا ہے، جبکہ مقنّنہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔۔۔ریاست کے تین بنیادی ستون مانے جاتے ہیں، جن کے بغیر ریاست کا وجود اور اس کے استحکام کا تصور ممکن نہیں ہوتا ، علی گڑھ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق نظمِ معاشرت اور سوسائٹی کو پاکیزہ جذبوں سے روشناس کروانے کا بنیادی ادارہ مسجد ، مدرسہ اور خانقاہ ہے۔ جہاں نفوس انسانی کو مادی نجاستوں اور اخلاقی عیبوں سے پاک کر کے عمدہ کردار کے سانچے میں ڈالا جاتا ہے، اور یہ کوشش محض انسان کے ظاہری اعمال کی درستگی تک ہی محدود نہیں۔۔۔ بلکہ کوشش یہ تھی کہ بُرائی کے سَوت اورمنبع و مصدر ہی بند ہو جائیں اور انسان کوبھرپور قلبی پاکیزگی و روحانی بالیدگی میسر آ جائے۔ اسلامی تاریخ میں یہ فریضہ صوفیا اور علما ربانیین نے ادا کیا۔ مسلمانوںکے دورِ عروج میں، اُن کے مستحکم سیاسی نظام اور مضبوط معاشرت کا انحصار "مسلم سوسائٹی"کے ضبط و نظم پر تھا،بلاشبہ جس کا کریڈٹ اس عہد کے ارباب تصوّف ، صاحبانِ محراب و منبر اور اہالیانِ مسند تدریس کو جاتا ہے ، جنہوں نے قوم کا اخلاقی مزاج درست رکھنے ، ان کو روحانی و دینی اقدار سے روشناس کرانے ۔۔۔ سوسائٹی میں تعمیری رحجانات اور صحت مند عناصر کو ابھارنے کی بھرپور سعی اور جدوجہد کی ، جس کے لیے ان کی "خانقاہ"اور اس کے ساتھ مسجد اور مدرسہ بڑے کلیدی اور اساسی کردار کے حامل تھے۔ مسلم سوسائٹی کے یہ مضبوط ادارے ، جنہوں نے اپنے دائرہ فکر وعمل کے سبب معاشرے میں اپنا رسوخ پیداکیا۔۔۔جہاں سے فرد سے لے کر خاندان تک کی اصلاح کا سامان مہیا ہوتا اور پھر اسی سے قبیلے اور قوم کو روحانی اور فکری پاکیزگی میسر آتی ، آج کے دور کے دیگر مختلف المیوں کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسلامی سوسائٹی کے یہ تین بنیادی ستون اپنی عظمتِ دیرینہ اور شوکت پارینہ کو قائم رکھنے میں کامیاب نہیں رہ سکے۔ بالخصوص 9/11کے بعد ہماری تہذیبی اور سماجی روایت میں جو تبدیلی آئی،اس میں نسل نو کی مسجد،مدرسہ اور خانقاہ سے تعلق کی کمزوری کا سانحہ بھی بہت نمایاں ہے،ہماری معاشرت میں نو عمر بچے کا قرآن پڑھنے کے لیے مسجد جانا ایک بڑا پاکیزہ اور بابرکت عمل اور روحانی و دینی برکات کا ذریعہ تھا،مساجد اور مدارس دہشت اور وحشت کی لپیٹ میں آئے،تو قرآن پڑھنے کی رسم گھرمیں، قاری صاحب کے آنے سے پوری ہونے لگی، جو فی الحقیقت ہمارے بچوں کی محرومیوں میں اضافے کا باعث بنی۔ بچوں کی شخصیت کی تشکیل اور تہذیب میں، اس اوائل عمری میں مسجد جانے کے نقش ساری زندگی روشنی عطا کرنے کا ذریعہ تھے، جہاں تک خانقاہ سے تعلق کا معاملہ ہے، تویہ بھی محض رسمی نوعیت سے آگے کا نہیں۔ بہرحال۔۔۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے عہد میں دین و تصوف کی یہی تحریک۔۔۔ ملک گیر اور عوامی حیثیت اختیار کر گئی تھی اور کیا عالم اور کیا جاہل۔ شہری اور دیہاتی ۔ امیر و غریب ۔ عورت اور مرد ۔ بوڑھے اور جوان ۔ آزاد اور غلام ، سبھی اُن کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہونے کے لیے بیتاب تھے، اور یوں ایک ایسا مضبوط ، اور صحت مند معاشرہ اُبھرا ، جس سے ایک مؤثر سیاسی نظام کی مستحکم بنیادیں استوار ہوئیں۔برصغیر میں جہانبانی کی تاریخ میں علاء الدین خلجی کو ایک کامیاب حکمران تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن اس کی کامیابی کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ اس کو ایک ایسا مضبوط معاشرہ ملا ، جہاں خواجہ نظام الدین اولیاء کی سرکردگی میں ایک مرکزی خانقاہی نظام، لوگوں کے تزکیہ و طہارت اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کر رہا تھا ، جس کی بناء پر علاء الدین خلجی ایک زبردست سیاسی نظام اور مضبوط سول ایڈمنسٹریشن کو استوار کرنے میں کامیاب ہوا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد جب مسجد ، مدرسہ اور خانقاہ کا نظام بگڑنا شروع ہوا ، تو سماج اور معاشرت کا اخلاقی توازن بھی قائم نہ رہ سکا۔اسلامی سوسائٹی میں ’’یدعون الی الخیر‘‘ یعنی خیر کی طرف بلانے اور ’’ینھون عن المنکر‘‘ یعنی برائیوں سے روکنے کے قرآنی اصول کو اگر نظر انداز کر دیا جائے ، اور اس ذمہ داری کے حامل انسٹیٹیوشن اگر اپنا کام کرنا چھوڑ دیں، تو پھر سوسائٹی اور معاشرہ میں انتشار اور اس کے اجزاء اور عناصرکا بگڑنا لازم ہو جائے گا، جس کا فوری اور یقینی اثر سیاسی نظام کی ابتری ، طوائف الملوکی اور حکمرانوں کی اخلاق باختگی کی صورت میں نمودار ہو گا۔ تاریخِ ہند کا یہ بھی ایک عجیب منظر تھا کہ جس وقت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اجمیر میں اسلام کا روحانی مرکز قائم کرنے میں مصروف تھے،تو عین انہی لمحات میں قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش سلطنتِ دہلی کی تعمیر و تشکیل کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ایک طرف لوگوں کو قلبی اور ذہنی پاکیزگی اور طہارت میسر آ رہی اور روحانی تسخیر روز افزوں اورمائل بہ عروج تھی، تو دوسری طرف سیاسی فتوحات اور مضبوط ریاست کی داغ بیل پڑ رہی تھی۔ ہندوستان کے اندر اس ابتدائی عہدمیں یہ دونوں ادارے تقریباً دو صدیوں تک متوازی چلتے اور اپنے حصّے کا کام بھرپور طریقے سے سرانجام دیتے رہے۔علاء الدین خلجی کا عہد ’’سلطنتِ دہلی‘‘ کے انتہائی عروج کا دور اس لئے تھا کہ خواجہ نظام الدین اولیاء نے دین و فقر اور سلسلہ تصوّف کو نقطۂ کمال تک پہنچا دیا تھا،یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے معاصر مورخین اس توارد کو محسوس کرتے ہوئے یہی لکھتے ہیں کہ اگر ایک طرف سلطان اپنے رعایا کی ویلفیئر کے لیے ہمہ وقت مصروفِ عمل تھا اور معاشرے میں نشہ آور اشیا ممنوع ، فسق و فجور کے راستے مسدود ،جبر و قہر،تشدّد آمیزی،سخت گیری اور ظلم و زیادتی کے دروازے بند تھے،تو دوسری طرف خواجہ نظام الدین اولیاؒء نے عام بیعت اور اصلاحِ احوال کے دروازے کھول رکھے تھے،گنہگاروں کو خرقہ اور توبہ ، عبادت و ریاضت، نیکی و تقویٰ۔۔۔خیرو فلاح کی توفیق ارزاں تھی۔پھر کچھ عرصہ بعد اگر سیاسی محاذ پر محمد بن تغلق یہ اعلان کرتا ہے کہ :’’ملک ما مریض گشت‘‘یعنی میرا ملک بیمار ہے، تو روحانی حلقوں میں شیخ نصیر الدین چراغ دھلی کے یہ حسرت ناک الفاظ بھی لوگوں کے کانوں میں پڑتے ہیں : "امروز خود ایں کار (شیخی) بازی بچگاں شد "۔ یعنی آج یہ کام بچوں کا کھیل سمجھا جانے لگا ہے ، اور پھر کیا ہوا کہ برصغیر کے مرکزی خانقاہی نظام کی علامت وہ تبرکات جو خواجہ معین الدین سے خواجہ قطب اور پھر بابا فرید ؒ سے حضرت خواجہ نظام اور پھر شیخ نصیر الدین چراغ دھلی تک پہنچے تھے ، ان کے وصال کے ساتھ ۔۔۔ آگے منتقل ہونے کی بجائے ان کی قبر میں رکھ دیئے گئے اور یوں اس روحانی سلسلے کا ایک تاریخ ساز اور سنہری باب ختم ہو ا، تو دوسری طرف فیروز شاہ کا آخری زمانہ بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے تھا، جب ایک بزرگ فجر کی نماز کے لیے وضو کرتے ہوئے، یک لخت سلطان کے محل کی طرف نگاہ اُٹھا کر کہتا ہے "دنیا کی تمام بلائیں اس کے پاؤں کے نیچے ہیں ، جب وہ دنیا سے چلا جائے گا تو دنیا والوں کو معلوم ہو گا"۔