بے تکلف ہوا تو پہلی بار اس نے اردو میں بات کی مجھ سے میں نے ساری عمر انگریزی پڑھائی تو اس مناسبت سے مندرجہ بالا شعر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب بھی تو انگریزی رکھ رکھائو اور تکلف تھا۔ پھر اس کے بے تکلف سوال کو ہم نے سخن آشنا کردیا: اس نے پوچھا جناب کیسے ہو اس خوشی کا حساب کیسے ہو میرے معزز قارئین! آج میں اردو زبان کے حوالے سے لکھنا چاہتا ہوں کہ ابھی ابھی اردو تحریک والوں نے اردو کو رائج کرنے کے لیے یا ترغیب دینے کے لیے اردو کانفرنس کی ہے۔ اس پر بعد میں بات کریں گے۔ پہلے میں آپ کو عام عوام کا نقشہ دکھانا چاہتا ہوں جو آپ کے لیے نہایت دلچسپ ہو گا اور سوچنے کی دعوت دے گا۔ میں اکثر گوالے کے پاس خود جاتا ہوں تاکہ خالص دودھ کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے وہاں انتظار بھی کھینچنا پڑتا ہے۔ آج میں اسی انتظار میں تھا تو میرے قریب بیٹھی چھوٹی چھوٹی بچیاں جو اپنے حلیے سے غریب گھروں کی نظر آ رہی تھیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ جھونپڑی میں رہنے والی تھیں تو غلط نہ ہوگا۔ یہ امر میرے لیے حیران کن تھا کہ وہ بڑی روانی میں اردو بول رہی تھیں۔ میں نہایت توجہ سے ان کی باتیں سننے لگا جو خالی از لطف نہیں تھیں۔ بچیوںکی عمریں یہی کوئی سات سے آٹھ سال ہوں گی۔ وہ سہیلیوں اور بہن بھائیوں کی باتیں بڑے مزے لے کر ایک دوسرے کو سنا رہی تھیں۔ ان کی معصومیت میں کیا کچھ تھا۔ ایک کہنے لگی کہ اس کی سہیلی اردو بھی بول سکتی ہے حالانکہ وہ دونوں بھی تو اردو بول رہی تھیں۔ پہلی سہیلی نے حیران ہو کر کہا وہ اردو کیسے بولتی ہے۔ کہنے لگی وہ کہتی ’’پاپا پاپا اور مام مام‘‘۔ پھر وہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگیں۔ میں نے سوچا کہ کبھی وہ وقت بھی آ جائے گا کہ انہیں انگریزی بولتے ہوئے بھی احساس نہیں ہوگا کہ وہ انگریزی بول رہی ہیں۔ یہ سب انہی انگریز سکولوں کا فیض ہے جو گلی محلوں میں کھلے ہوتے ہیں اور وہ سب سے پہلے بچوں کو پاپا ماماں سکھاتے ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیے کہ میں کوئی اردو کے خلاف لکھنے جا رہا ہوں۔ نہیں جناب میں اردو زبان کے حق میں دل و جان سے ہوں۔ میرے والد مکرم نصراللہ شاہ جو تمام عمر پڑھاتے رہے، اس بات پر انتہائی شدومد سے ضرور دیتے کہ اردو کو رائج کردینا چاہیے۔ ان کے پاس نہایت ٹھوس دلائل ہیں۔ اردو زبان تو کسی حد تک پنجابیوں کی بھی مادری زبان بن چکی ہے۔ کہ اب بچے ماں کے پیچھے نہیں بلکہ ماں بھی بچوں کے لیے اردو ہی بولتی ہے۔ بعض پڑھی لکھی بعض انگریزی پڑھی لکھی تو اپنے بچوں سے انگریزی بولتی ہیں۔ بے نظیر کی مثال بہترین ہے۔ جب بے نظیر کا وہ کلپ چلتا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو انگریزی میں تعلیم دے رہی ہیں تو قوم کو کیا پیغام پہنچتا ہے، یہی کہ انگریزی سٹیس سمبل بن گیا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ انگریزی انٹرنیشنل زبان ہے اور ہماری سائنس سبجیکٹ ہی نہیں معاشی، معاشرتی اور دوسرے جدید مضامین بھی انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں کہ انہوں نے اس پر کام ہی بہت کیا ہے اور ہمارے روزگار انہی مضامین سے وابستہ ہیں۔ انگریزی اگر سہولت پیدا کرتی ہے تو ایک مسئلہ اور رکاوٹ بھی ہے کہ یہ راتوں کا خیراج بھی مانگتی ہے۔ بعض اوقات تو اس میں ماسٹر کر جانیوالے بھی میرے جیسے ہی رہتے ہیں۔ کچھ معاملات بھی سازگار نہیں اور کچھ ہماری نیت میں بھی فتور ہے کہ ہم آئین کو بھی نہیں مان رہے کہ 73ء کے آئین میں 15 سال بعد اردو کو دفتری زبان بنانے کا فیصلہ ہوا تھا جو تاحال عملی جامے سے محروم ہے جبکہ آزادکشمیر میں اردو کو دفتری زبان بنا دیا گیا ہے۔ حال ہی میں چینی وزیر خارجہ چینی میں بات کر رہا تھا مگر شاہ محمود قریشی انگریزی بول رہے تھے، جسے آپ غلامانہ احساس محرومی کہہ سکتے ہیں۔عزیز ظفر آزاد، پروفیسر سلیم ہاشمی اور فاطمہ قمر صبح قومی اردو زبان کے نفاذ کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اسی نفاذ اردو کے لیے انہوں نے الحمرا آرٹس کونسل میں کانفرنس کروائی۔ انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ اپنے وزیر خارجہ کو اقوام متحدہ میں اردو خطاب کرنے کے لیے کہیں۔ آپ نیا پاکستان بنانے جا رہے ہیں تو اس کی روح وہی اردو زبان ہونی چاہیے جسے قائداعظم نے ہماری قومی زبان قرار دیا۔ نفاذ اردو کانفرنس میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے بہت حوصلہ افزا باتیں کیں کہ وہ بھی اپنے دوروں میں اردو زبان اختیار کریں گے۔ گفتگو کرنے والوں میں اوریا مقبول جیسے مہا کالم نگار اور دانشور بھی تھے۔ وہ تو پہلے بھی لکھتے رہتے ہیں جب تک سی ایس ایس امتحان کو اردو میڈیم میں نہیں کیا جائے گا، تبدیلی نہیں آئے گی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کہا کہ جن لوگوں کو اپنے وطن، زبان اور ثقافت سے محبت ہو وہی ترقی کرتے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے بھی مہمان آئے تھے جو بھی ہے فاطمہ قمر اپنے تئیں تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اصل میں ہمارے صاحبان اقتدار خلوص نیت سے اردو کا نفاذ نہیں چاہتے ’’دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں؟‘‘۔ ساری دنیا کے سفیر اور نمائندگان ہر جگہ جا کر اپنی زبان بولتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ اپنی قومی زبان کو اپنی قوم کے پاس چھوڑ جاتے ہیں کہ یہ عالمی منظر نامے کے قابل نہیں۔ ایک صدر ممنون حسین ہیں جنہوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس میں اردو میں تقریر کر کے اقوام عالم پاکستان کا سربلند کیا۔ اردو کا نافذ نہ کرنے والے توہین عدالت کے بھی مرتکب ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ یہ اعزاز اپنے نام کریں اور اردو کو فی الفور رابطے کی زبان ہی نہیں سفارتی زبان بھی بنائیں۔ ہندو تک اردو زبان سے گھبراتے ہیں اور وہ اسے مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہیں مگر ہم اس شناخت سے گھبراتے ہیں۔