عربی کے ایک مشہور مقولے میں نصیحت کی گئی ہے کہ "من قال" نہیں، "ما قال" کو دیکھو۔ یعنی "کون کہہ رہا ہے" سے، "کیا کہا گیا ہے؟" زیادہ اہم ہے۔ خود ہماری زبان میں "بد اچھا، بد نام برا" کی غلط سلط تاکید ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بجا کہے جسے عالَم، اسے بجا سمجھو زبان ِخلق کو، نقارۂ خدا سمجھو لیکن عام خلقت میں "ازخود" نقارۂ خدا بننے کی قوت اور صلاحیت، اگر ہوتی تو خواص کیا کِیا کرتے؟ داد دیجیے ہمارے شاعر کی نکتہ وری کو، جو کہتا ہے دنیوی چیزوں کے گو ہیں قاعدے قاعدوں کا قاعدہ کوئی نہیں دنیا میں چلے ہوے اکثر اصول اور مروجہ قاعدے، صدیوں سے غلط ثابت ہوتے آے ہی ہیں۔ "عوام کی رائے" اور "جمہور کا حق" وغیرہ کے نعرے، جتنے بھی دل فریب ہوا کریں، دل نشین ہوا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج عوام کی رائیں قائم ہی ہوتی ہیں ان "حقائق" کی بنیاد پر، جو خواص کے پیش اور تیار کردہ ہوتے ہیں۔ اسی کا ایک نام پراپیگنڈا ہے! ہٹلر کا وزیر گوئیبلز، بدنام بہت ہوا، مگر اصل "بد" انگریز تھے۔ اس قوم نے گوئبلز سے بہت پہلے، اس فن کو درجہ کمال تک پہنچا دیا تھا۔ پہلی جنگ ِعظیم میں جب ان کی پٹائی ہو رہی تھی، ان کا راوی اس وقت بھی چَین لکھتا تھا۔ اسی لیے تو طنزا کہا گیا تھا کہ ع قدم جرمن کے بڑھتے ہیں، فتح انگلش کی ہوتی ہے؟ پراپیگنڈے کی انگریز قوم آج بھی بادشاہ ہے۔ لندن دیکھنے کا جنہیں اتفاق ہوا ہو گا، تصدیق کریں گے کہ ٹیبلائڈ جرنلزم کا گڑھ، آج بھی انہی کا ملک ہے! بر ِصغیر میںپراپیگنڈے کا کام، پہلے اخبار اور پھر "تعلیم" کے ذریعے کیا گیا۔ وہی اخبار، جس کے بارے میں طنز کے بادشاہ نے کہا تھا کہ گھر سے خط آیا ہے، یاں ہو گیا چہلم ان کا پاینیئر لکھتا ہے "بیمار کا حال اچھا ہے" یعنی انتقال ہو گیا، کفن دفن ہو گیا، فاتحہ ہو گیا، قْل بھی ہو گئے۔ حتیٰ کہ چالیسواں بھی گزر گیا۔ لیکن انگریزی اخبار کہتا ہے کہ بیمار کو اب افاقہ ہے! اور "تعلیم"؟ توپ کھسکی، پروفیسر پہنچے جب بسولا ہٹا تو رندا ہے اس میدان میں ان کی صلاحیت بے پناہ اور طریقہ واردات نہایت بلیغ ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پر چھا چکی تھی، لیکن منادی کیا کی جاتی تھی؟ "خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا"۔ خلقت خدا کی؟ یعنی معاملہ اب روز ِآخرت، خدا کے روبرو طے ہو گا! ملک بادشاہ کا؟ لیکن حْکم کمپنی بہادر کا؟ ملک تو اسی کا ہوتا ہے، جس کے حْکم کا سکہ چلتا ہے۔ یہ بے حْکم کا اقتدار، انگریز ہی دے سکتے تھے! ایسی کھْلی ہوئی فریب دہی اور صریح دھاندلی، کسی اور کے حصے میں نہ آئی ہو گی! حد یہ ہے کہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ ِآزادی کو، اکثر مقامی لوگ آج تک "غدر" لکھتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ سن سینتالیس میں ہمیں آزادی نہ ملی ہوتی اور مسلح جد و جہد کی گئی ہوتی تو اسے سینتالیس کا غدر لکھا جا رہا ہوتا! یہ قوم مکار اور ظالم تو تھی ہی، فتنہ انگیزی اور پروپیگنڈے کا اعجاز ہے کہ جن ملکوں کی یہ اینٹیں تک اکھاڑ کر لے گئے، ان میں بعض "دانشور" آج تک اس دور کا دَم بھرتے ہیں۔ یہ تعریف و توصیف، اگر مفت کی جاتی ہے، تو وہی شوکت تھانوی والی بات ہوئی کہ ریڈیو آرٹسٹ وہ مدخولہ سرکار ہے جو ملازم بھی نہیں ہے، اور تابع دار ہے آمدم بر سر ِمطلب۔ پراپیگنڈا زندگی کا اب لازمی جْز بن چکا ہے۔ سیاست اور صحافت سے لے کر فن و ادب کی ہر وادی پر، اس کا جمائو ہے! خصوصا سیاست اور صحافت کے گٹھ جوڑ نے، بڑی قیامت ڈھائی ہے۔ عراق کی تباہی کسے بھولی ہو گی؟ کتنی آسانی سے، خواص کے مذموم مقاصد، عوامی راے میں تبدیل ہو گئے! اب جو تازہ وارداتیں، امریکہ میں ہو رہی ہیں، ان کا ذکر اگلے کالم تک اٹھا رکھتے ہیں۔ سر ِدست کچھ اردو ادب کی بھی سْن لیجیے۔ خواجہ حسن نظامی مرحوم پروپیگنڈا میں اپنا جواب آپ ہی تھے۔ اس معاملے میں ذہن اتنا اخاذ اور زرخیز تھا کہ جو سوجھتی، نئی اور اچھوتی سوجھتی۔ حد یہ ہے کہ اپنے مکان کی دیواروں اور فرش پر جو ٹائلیں لگوائیں، ان میں بھی اشتہار بازی کی گئی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر انہیں قد ِآدم پوسٹر کہا کرتے تھے! اردو شاعری میں یہ کام سب سے پہلے غالبا فراق گورکھپوری نے کیا۔ موصوف کو شاعری کرتے کرتے، جب ایک مدت گزر گئی اور ان کا نوٹس نہ لیا گیا تو ایک زبردست ترکیب ذہن میں آ گئی۔ نگار اور دیگر ادبی رسائل کو، فرضی ناموں سے خود اپنے شعروں پر، وہ تنقیدی خط بھیجنے لگے۔ کرتے یہ تھے کہ اپنے بہتر شعروں پر، کوئی لغو اور الل ٹپ اعتراض لکھ بھیجتے۔ ایسی "تنقید" کے پرخچے اڑا دینا بھلا کیا مشکل تھا؟ سو خود ہی ان "اعتراضوں" کو ہوا میں اڑا دیتے۔ ادبی رسائل تو یہ دیکھ رہے تھے کہ فراق صاحب کی شاعری لائق ِتوجہ سمجھی جاتی ہے، اسی لیے ڈھیروں خط آ رہے ہیں۔ اس طرح، رفتہ رفتہ، لوگوں کی نظروں میں آتے گئے اور سماتے گئے! پروفیسر ایم ڈی تاثیر ان سے بھی دو جوتے آگے تھے۔ آدمی بھی طبعا شریر اور فتنہ پسند تھے۔ ان کی واردات ذرا مختلف تھی۔ تاثیر صاحب اس کام میں اپنے مخالفوں کو بھی گھسیٹ لاتے تھے۔ اپنی تعریف اور دوسروں کی تنقیص، خود لکھ کر، اپنے کسی دشمن کے والد کے نام سے بھجوا دیتے۔ ان کی اس "خوش مذاقی" کا جواب محمد حسن عسکری نے دیا اور خوب دیا تھا۔ بقول عسکری صاحب کے، یہ فتنہ انگیز تحریریں چھپوانے کے بعد، تاثیر اپنے دوستوں کے سامنے زانو پیٹ پیٹ کر ساری بات بتا کر رہتے۔ یعنی ع میں اپنی داد خود دے لوں کہ میں بھی کیا قیامت ہوں پراپیگنڈے کے سمندر سے، یہ چند قطرے پیش کیے گئے ہیں۔ "تجزیے" تو رہے ایک طرف، دن رات جو "خبریں" سی این این اور بی بی سی وغیرہ پر پیش کی جاتی ہیں، ان میں سے بھی بیشتر میں یا قلم لگایا جاتا ہے یا کسی فائدے کے لیے، کوئی خاص زاویہ ابھارا جاتا ہے۔ یہ "عوام کی آواز عوام تک پہنچاتے ہیں یا خواص کے ڈھول پیٹ رہے ہیں شیخ سعدی کہتے ہیں۔ بہ نطق آدمی بہتر است از دواب دواب از تو بِہ، گر نگوئی صواب یعنی انسان کی گفتار ہی اسے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اور زبان سے اگر خیر کے سوا کچھ اور نکلتا ہے، تو پھر حیوانوں سے ایسے لوگ بدتر ہیں! چیختے چنگھاڑتے ہوے ان چینلوں سے، خیر کا بھی پیغام نکلتے دیکھنے کی، حسرت ہی رہتی ہے!