چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بنچ نے نندی پور پاور پراجیکٹ کیس دوبارہ کھولتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ نندی پور پاور پراجیکٹ کا2005ء میں ابتدائی تخمینہ 22بلین روپے لگایا گیا تھا جنوری 2008ء میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بجلی گھر لگانے کی اجازت ملنے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس منصوبے کا ٹھیکہ چین کی ڈونگ فینگ الیکٹرک کارپوریشن کو 23ارب میں دینے کے ساتھ لاگت کا 10فیصد پیشگی ادائیگی بھی کر دیا تھا۔2012ء میں ڈونگ فینگ کے چیئرمین نے کلیرنس نہ ملنے اور 85ملین ڈالر کی مشینری کراچی پورٹ پر روکے جانے کو جواز بنا کر ٹھیکہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جون2013ء میں مسلم لیگ نون کے اقتدار میں آنے کے بعد اس منصوبہ پر دوبارہ بات چیت کا آغاز ہوا اور بالآخر مارچ 2015ء میں 57.4بلین روپے کی لاگت سے اس منصوبہ کو مکمل کر لیا گیا مگر اس سے 42روپے فی یونٹ بجلی بھی صرف 5دن تک حاصل کی جا سکی ۔پنجاب کے خادم اعلیٰ نے منصوبے کی ناکامی کے الزام سے بچنے کے لیے نندی پور پاور پراجیکٹ کو ایل این جی پر منتقل کرنے کے لیے 30.6بلین روپے مزید اس ناکام منصوبے میں جھونک دیے مگر بدقسمتی سے22ارب روپے سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ قومی خزانہ سے 85ارب ڈکارنے کے بعد بھی فعال نہ ہو سکا۔ سپریم کورٹ نے قومی وسائل کے اس بے دریغ ضیاع کا نوٹس لیتے ہوئے جون 2018ء میں نیب کو تحقیقات کا حکم دیا تھا اب نیب کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ لائق تحسین ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اب اس منصوبہ میں لوٹ مار کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہریے میں لایا جا ئے گا۔تاکہ مستقبل میں قومی خزانہ کی لوٹ مار کا سلسلہ تھم سکے۔ اپوزیشن جماعتوں کا الیکشن کمشن کے باہر احتجاج مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت ہم خیال سات اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف الیکشن کمشن کے باہر احتجاج کیا اور الیکشن کمشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا‘ اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے ’’جعلی الیکشن نامنظور‘‘ کے نعرے لگائے اور احتجاجی ریلی نکالی۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ جمہوری معاشروں میں احتجاج ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ حق کسی مقصد کے تحت ہو تو نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں‘ لیکن اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ احتجاج سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احتجاج کسی منزل کے تعین کے بغیر ہی کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ جماعتیں احتجاج سے قبل ہی ٹولیوں میں بٹ گئیں اور تین جماعتوں کے سربراہان احتجاج سے غائب رہے۔ اصولاً انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو نئی اسمبلیوں کے قیام کا انتظار کرنا چاہیے اور اپنا تمام تر احتجاج ان اسمبلیوں میں پہنچ کر ریکارڈ کرانا چاہیے۔ یہی جمہوری معاشروں کا رویہ ہے۔ اگر یہ جماعتیں باورکرتی ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو یقینا انہیں ایسا کہنے کا حق ہے لیکن انہیں یہ حق اسمبلی کے فورم پر استعمال کرنا چاہیے ان کے لیے یہی سب سے مناسب جگہ ہے لہٰذا اپوزیشن رہنمائوں خصوصاً وہ رہنما جو کسی نشست سے کامیاب ہی نہیں ہو سکے ان کے لیے یہ زیبا نہیں کہ وہ نئی اسمبلیوں کے قیام سے قبل ایسی سیاسی دھماچوکڑی مچائیں جس سے جمہوریت کے قیام کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو۔ لہٰذا ہم خیال اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ محض وقتی مفاد کے حصول کی بجائے وسیع تر قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں تاکہ ملک میں جمہوریت کی مضبوط بنیادیں رکھی جا سکیں لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ حزب مخالف کی جماعتیں اسمبلی کے فورم پر آ کر اپنی شکایات کے ازالہ کی کوشش کریں تاکہ ان کے مطالبات کو صحیح نہج ملے اور وہ کسی نتیجہ سے ہمکنار ہو سکیں۔