کسی تقریر یا مضمون میں کون سی بات اہم‘ ذہین لوگ سن کر یا پڑھ کر جان لیتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب سے اہم بات‘ سب سے اہم اور معنی خیز ’’اشارۃً وہ ہوتا ہے جو کیا ہی نہیں گیا ہوتا۔ جیسے وزیر اعظم نے اپنے پہلے خطابات میں بہت کچھ فرمایا اور اخباری ناقدین کے مطابق ان میں اہم بات کوئی بھی نہیں تھی حالانکہ تھی۔سب سے اہم یہ تھی کہ ان خطابات میں آئین یا جمہوریت کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ اور یہی ذکر نہ ہونا ہی نئے دور کی تمہید تھا اور یہی وہ بات تھی جس کا سارے فسانے میں نہ ہونا کئیوں کو ناگوار تو کئیوں کو خوشگوار گزرا۔ ایسا ہی معاملہ گزشتہ سے پیوستہ روز اسلام آباد میں پاک امریکہ مذاکرات کی بریفنگ کا بھی ہوا۔ امریکی وزیر خارجہ جناب پومپیو اور پاکستانی حکام کے ان مذاکرات کا شہرہ کئی ہفتوں سے سن رہے تھے اور تبدیلی سرکار قائم ہونے کے بعد توجہ اور بھی اس طرف ہو گئی لیکن جب یہ ہوئے تو بہت مختصر۔ ایک مبصر نے یہ تبصرہ فرمایا کہ سگریٹ کا کش لیتے لیتے مذاکرات کاعمل مکمل ہو گیا۔ ماجرا پھر یوں ہوا کہ ان مذاکرات کی بریفنگ عوام کو جناب شاہ محمود قریشی نے دی۔ وہی شاہ صاحب جو وزارت خارجہ پر دوسری بار آئے ہیں اور اپنے اس حالیہ دور میں چند دنوں کے اندر پے درپے چار ’’سفارتی معرکے‘‘ سر کر کے عوام و خواص کی داد پا چکے ہیں۔ انہوں نے اتنی طویل بریفنگ دی کہ ایک صاحب مضطرب ہو کر کہنے لگے کہ یار‘ افغان مسئلہ پہلے حل ہو گا یا یہ پریس کانفرنس پہلے ختم ہو گی۔ لگتا تو نہیں تھا کہ یہ بریفنگ کبھی ختم ہو گی لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ آخر ختم ہو گئی۔ بے پناہ طویل ارشادات‘ ان گنت مرصع اور مسجع اور مصنّع فقرے ان کے دہن بلاخیز سے برآمد ہوئے اور خلاصہ اس بوالکلامی کا یہ تھا کہ ’’مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے اور امریکہ نے ڈومور کا بالکل نہیں کہا؟‘‘ ٭٭٭٭٭ یعنی جس بات کا ڈر تھا‘ وہ ہوئی ہی نہیں۔ امریکہ بہادر کا وفد قائد انقلاب سے اتنا مرعوب ہوا‘ اتنا ڈر گیا کہ ع کہنی تھی جو بات ہمیں‘ وہ بات ہی کہنا بھول گئے پاک امریکہ فسانے کا پلاٹ جس ’’ون لائن‘‘ پر گھوم رہا ہے۔ وہ لائن ہی بقول شاہ صاحب غائب تھی۔ اسے تو معجزہ کہیے۔ اتنے خوشگوار نتیجے کی برآمدگی پر تو شادی مرگ کا حق بنتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ امریکی وزیر خارجہ نے روانگی کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شاہ صاحب کے دعوے کی تصدیق ہی کی۔ فرمایا ہم نے پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنے کو کہا ہے۔ دیکھ لیجیے‘ انہوں نے بھی ڈومور کا نہیں فیصلہ کن اقدامات کی فرمائش کا ذکر کیا۔ ڈومور اور فیصلہ کن اقدامات میں بہت فرق ہے۔ کم فہم چاہے نہ سمجھیں۔ شاہ صاحب اس فرق کو سمجھتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ تبدیلی سرکار کی وجہ سے آسانیوں نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ عرفی نے کہا تھا‘ جو بھی ’’آسانی‘‘ نازل ہوتی ہے‘ میرے گھر کا رخ کرتی ہے۔ وہی اب بھی ہوا۔ امریکہ کو پہلے اتنا خیال ہمارا کب تھا جتنا اب ہے۔ مثلاً ایک اخبار نویس کے سوال پر کہ اگر پاکستان اقدامات نہ کر سکا تو کیا ہو گا‘ پومپیو نے فرمایا‘ پھر وہ ہو گا جو جنرل ملر اور جنرل نیلسن نے کہا تھا۔ ان دونوں صاحبوں نے جو کہا تھا‘ وہ تھا کہ پھر ہم ہی کچھ کریں گے۔ دیکھئے‘ اسی کو شفقت کہتے ہیں۔ باپ اپنے بچے سے کام کرنے کو کہتا ہے۔ بچہ وہ کام نہیں کر پاتا۔ اس کی ہمت و طاقت سے بڑا ہوتا ہے تو باپ کیا کرتا ہے؟ کیا اسے ڈانٹنا ڈپٹتا ہے؟ اچھا باپ ایسا بالکل نہیں کرتا۔ وہ بچے سے کہتا ہے‘ کوئی بات نہیں‘ یہ تم سے نہیں ہو گا۔ چھوڑ دو‘ میں خود کر لوں گا۔ ملاحظہ کیجیے‘ ایسی شفقت پہلے بھی دیکھی۔ ٭٭٭٭٭ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ؒ برصغیر کے چوٹی کے علمائے دین میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ دینی علوم کے علاوہ تاریخ و سوانح اور عربی و فارسی ادب پر بھی انہیں گہری دسترس حاصل تھی۔ متعدد سوانحی کتب عربی میں لکھی گئی ہیں جن کے تراجم اردو میں کئے گئے۔ ان تراجم پر مولانا نے جو حاشیے لکھے ہیں‘ وہ اپنی جگہ ایک کتاب کا مواد ہیں۔ بالخصوص امام ابن تیمیہ ؒ پرابو زہرہ کی تصنیف جس کا ترجمہ مولانا غلام رسول نے کیا۔ اسی طرح صحاح ستہ میں شامل سُنن نسائی پر آپ نے جو حاشیے (تعلیقات) لکھے‘ ان کا شہرہ برصغیر بھر میں ہوا۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد آپ نے لاہور سے دینی و تبلیغی جریدہ ’’الاعتصام‘‘ نکالا جس کے وہ آخر تک مدیر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ادارے کی نظامت آپ کے صاحبزادے حافظ احمد شاکر نے سنبھالی ‘جو معروف ناشر بھی ہیں اور کتابت و تدوین کے فنی حسن میں اپنی مہارت اور خوش ذوقی کا خراج اہل ذوق حضرات سے حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے ’’الاعتصام ‘‘کا خصوصی نمبر شائع کیا ہے جو مولانا عطاء اللہ حنیف کی سوانح اور علمی خدمات کے علاوہ تذکیر شخصی پر مشتمل ہے اور درجنوں معروف اہل قلم کی نگارشات اس میں شامل ہیں۔ بہت سے ایسے مضامین بھی اس میں شامل ہیں جو متعلقہ موضوع پر خود ایک مختصر کتاب بن سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں یہ ضخیم نمبر موصول ہوا۔ انکار حدیث مختلف شکلوں میں ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور اس پر مولانا مودودی مرحوم نے ترجمان القرآن کا جو ’’منصب رسالت نمبر‘‘ شائع کیا تھا اسے بے حد شہرت حاصل ہوئی تھی اور پرویزی مکتب فکر کے رد میں علما کو بہت سا مواد اسی نمبر سے ملا۔ لیکن بوجوہ یہ بات زیادہ شہرت نہیں پا سکی کہ اس نمبر سے بہت پہلے1956ء میں مولانا عطاء اللہ حنیف نے الاعتصام کا ایک ضخیم نمبر ’’حجیت حدیث‘‘ کے نام سے نکالا تھا جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء نے برصغیر بھر سے اپنی سفارشات دی تھی۔ انکار حدیث آج کل کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن یہ مکتب فکر بہرحال موجود ہے اور اس بارے میں اگر کوئی صاحب زیادہ کتب پڑھنے کی ہمت نہ کر سکیں تو مذکورہ دونوں رسالوں کے یہ دو نمبر اس کے لیے کافی رہیں گے۔ شاید کئی قارئین کو علم نہ ہو کہ انکار حدیث کو بطور عقیدہ پھیلانے کی سرکاری کوشش سابق صدر ایوب خاں کے دور میں ہوئی تھی جو تمام مکاتب فکر کے علماء نے ناکام بنا دی تھی۔ ٭٭٭٭٭ تہران میں ایک بچے کا کان پولیس نے اس جرم میں کاٹ دیا کہ وہ کوڑے کے ڈھیر سے کھانے پینے کی چیزیں ڈھونڈ رہا تھا۔ ایران میں مذہبی حکومت ہے جو چوری کا جرم برداشت نہیں کرتی۔ چوری چوری ہے ‘چاہے گھر یا دکان سے کی جائے چاہے کوڑے کے ڈھیر سے۔ ملک میں غربت انتہا کو عبور کر چکی ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں کی وجہ سے عوامی بے چینی کی بہت کم خبریں باہر آپا رہی ہیں۔ ملک بھر کے شہر ایک سال سے مظاہروں کی زد میں ہیں۔ اس ہفتے عراقی شہر بصرہ اور اس کے علاوہ جنوبی اور وسطی عراق میں بھی غربت مہنگائی کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مظاہروں کا رخ بھی عراق کی حکومت کے خلاف کم اور ایران کے خلاف زیادہ تھا۔ انہیں ’’امریکی پلانٹڈ‘‘ مظاہرے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ زیادہ تر آیت اللہ مقتدیٰ صدر کے حامی ہیں جو تب بھی امریکہ کے خلاف تھے جب اس نے عراق پر حملہ کیا تھا اور ایران نے امریکیوں کی عملی مدد کی تھی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ایرانی مداخلت کی وجہ سے عراق میں غربت اور بدامنی بڑھ رہی ہے۔ ادھر ایران ان سب معاملات سے بے نیاز ہے اور منگل کے روز اس نے شام میں ادلیب کے حریت پسندوں سے جنگ کے لیے مزید فوج بھجوا دی ہے۔