نواز شریف 2013ء کے الیکشن کے بعد وزیر اعظم بنے۔2008ء کے الیکشن میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی ۔ 2013 ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے 166 سیٹیں لی تھیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 42 اور پاکستان تحریک انصاف نے 35 سیٹیں جیتیں۔ پاکستان مسلم لیگ کو واضح اکثریت حاصل تھی۔پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی کل ملا کر 77 سیٹ تھی جو پاکستان مسلم لیگ نواز کا 46فی صد تھا۔ الیکشن مہم کے دوران عمران خان زخمی ہو گئے ۔ جب وہ صحتیاب ہوئے تو انہوں نے الیکشن دھاندلی کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی۔ انہوں نے چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔ 14 اگست 2014ء کو پاکستان تحریک انصاف نے آزادی مارچ شروع کر دیا۔ اور پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکن 16 اگست کی رات کو اسلام آباد پہنچ گئے۔ پی ٹی وی پر حملہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کا یہ دھرنا 126 دن جاری رہا۔ 16 دسمبر کو جب پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو پاکستان تحریک انصاف نے اپنا دھرنا ختم کیا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز پر جو دوسرا حملہ ہوا وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔3 اپریل 2016ء کو پانامہ پیپر لیک ہو گئے ان پیپرز میں نواز شریف کا نام آگیا ۔ عمراں خان نے اس مسئلہ کو خوب پکڑا اور اسمبلی اور اسمبلی کے باہر احتجاج کا نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ سپریم کورٹ نے ایک کمیشن بنا دیا جس کی رپورٹ پر نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا۔28 جو لائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ پانامہ پیپر کے سوا سال بعد نواز شریف وزیر اعظم ہاوس سے اڈیالہ پہنچ گئے تھے۔ نواز شریف کو اپنے دور میں نہ تیل کے مہنگے ہونے کا مسئلہ تھا نہ ڈالر کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ نواز شریف کے مسائل سیاسی تھے معاشی نہیں تھے۔ 2018ء کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو کل 149 سیٹ ملیں پاکستان مسلم لیگ نواز کو 82 اور پاکستان پیپلز پارٹی کو 54 سیٹیں ملیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی کل سیٹ پاکستان تحریک انصاف کی سیٹوں کا 91 فی صد تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کو ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق سے ملکر حکومت بنانی پڑی۔ پاکستان تحریک انصاف کو ایک کمزور حکومت ملی تھی۔ جو اتحادیوں کے رحم و کرم پر تھی۔ 2018ء میں الیکشن ہوا اور پاکستان تحریک انصاف کی حکوت بنتے ہی ڈالر کو پر لگ گئے اور ڈالر 100 روپے سے 145 روپے تک بہت تھوڑے عرصہ میں پہنچ گیا۔ پٹرول کی قیمت 100 روپے سے اب تین سال میں 145 روپے تک چلی گئی۔ اب ڈالر کی قیمت177 روپے سے اوپر چلی گئی ہے۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ اگر 100 ارب روپے تھا تو اب 177 ارب روپے ہے۔ کچھ لئے بغیر قرضہ دو گنا کے قریب ہو گیا۔ عمران خان کی حکومت 2018ء میں بنی اور 2020ء کے آغاز میں کورونا شروع ہو گیا۔ کورونا کی وجہ سے سب ممالک کی اکانومی ڈوب گئی۔ بہت سے ملک دس دس سال پیچھے چلے گئے۔ پاکستان میں اگرچہ کورونا کی شدت وہ نہیں تھی تاہم اسکے اثرات اب تک محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ کورونا کے دوران تیل کی کھپت بہت حد تک کم ہو گئی اور بعد میں تیل کمپنیوں کی کام کی رفتار بہت سست ہو گئی اس بنا پر اب آئے دن تیل کی قیمتوںمیں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان پر اسکے اثرات کئی گنا ہے۔ ایک ڈالر کی قیمت میں اضافہ دوسرا تیل کی قیمت میں اضافہ۔ عمران خان کی حکومت کے مسائل سیاسی کم اور معاشی زیادہ ہیں۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا اتحاد پچھلے 10 سال میں سب سے مضبوط اتحاد ہے۔ عمران خان کی حکومت شروع میں سیاسی طور پر کمزور لگ رہی تھی۔ لیکن یہ اب تک تین بجٹ منظور کروا چکی ہے۔ تیس سے زائد بل ایک ہی دن میں پاس ہو گئے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین 2023ء کے الیکشن میں استعمال ہو گئی۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل گیا ہے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے عمران خان نواز شریف سے بہت مضبوط نظر آتے ہیں۔ وہ کافی ساری قانون سازی کر چکے ہیں۔ ہر مرحلہ پر وہ پہلے کمزور نظر آتے ہیں اور بعد میں پہلے سے طاقتور بن کر ابھرتے ہیں۔ نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے۔ ان کو سستا ترین تیل ملا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ مگر انہوں نے تین سال میں اپنی حکومت کا خاتمہ کروا لیا اور اب آنے والے الیکشن میں ان کی پارٹی کو کافی مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔ پاکستان کی سیاست میں اب وڈیو وڈیو کا کھیل جاری ہے۔ملک کے مسائل پر کسی کی نظر نہیں ہیں اور لوگ وڈیو وڈیو کھیل رہے ہیں اور ہمارا میڈیا بھی اس کھیل میں پورا شریک ہے۔ حد ہو گئی اب یہ کھیل ختم ہو نا چاہیے۔ آخر میں ایک افسوس ناک خبر۔ صحافت کا سورج ضیا الدین احمد غروب ہو گیا۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے صحافت کی سب سے بے باک اور دانشمند آواز خاموش ہو گئی۔ اگر کسی نے ضیا الدین احمد کے وژن کا مطالعہ کرنا ہو تو ڈان میں انکے وہ آرٹیکل پڑھے جو انہوں نے 1990ء کی دہائی میں لکھے اور آج کے حا لات میں وہ کس حد تک درست ثابت ہو رہے ہیں۔ ضیا الدین احمد صحافت میں استادوں کے استاد تھے۔محترم رؤف کلاسرہ کے ساتھ ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو رؤف کلاسرہ نے مجھے کہا اگر صحافت میں کچھ سیکھنا ہے تو ضیا صاحب سے گر سیکھ لو۔ ضیا الدین احمد اپنے عہد کے آخری صحافی تھے۔ اسکے بعد صحافت میں کمرشل ازم بہت ہو گیا۔ اقدار کے ساتھ صحافت ضیا الدین احمد کی زندگی کا مشن تھا۔ خدا ان کے درجات بلند کرے اور دوسرے لوگوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔