وفاقی کابینہ نے سابق وزیرعظم نوازشریف کے خلاف نیب مقدمات کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ نگران وزیراعظم ناصرالملک کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نوازشریف کے جیل میں ٹرائل کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ نوازشریف کے خلاف مقدمات کی سماعت کھلی عدالت میں ہونی چاہیے تاہم اوپن ٹرائل کئے جانے سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ ملک میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے بم دھماکوں اور ان میں بڑی تعداد میں ہونے والی شہادتوں کے بعد بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کو اس وقت اندرونی و بیرونی طور پر سکیورٹی کے سخت مسائل کا سامنا ہے لہٰذا موجودہ صورت حال کے پیش نظر نہ صرف سکیورٹی کے معاملات کو مزید درست کئے جانے کی ضرورت ہے بلکہ اوپن ٹرائل سے قبل ان کا ازسرنو جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک بڑا مقدمہ ہے اور دنیا بھر میں اس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ ایسے مقدمات کی سماعت پر حفظ ماتقدم کے طور پرسکیورٹی اقدامات ناگزیر ہوا کرتے ہیں۔ اگرچہ وفاقی کابینہ نے نوازشریف کے خلاف ریفرنسوں کی سماعت کے دوران کسی بھی مرحلہ پر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ٹرائل کورٹ کا مقام تبدیل کرنے کی گنجائش رکھی ہے تاہم انتخابی مہم کے اختتام اور پولنگ کے دن تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنمائوں کی سکیورٹی پر سختی سے عملدرآمد کرائے اور انتظامیہ کی طرف سے سیاسی رہنمائوں کو ان کی کارنر میٹنگوں اور سیاسی اجتماعات کے دوران سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی آگاہ رکھا جائے تاکہ انتخابات کے مقررہ وقت پر پُرامن انعقاد کو ممکن بنایا جا سکے۔