ملک میں اس وقت جس قسم کی سیاسی صورتحال چل رہی ہے اس میں یہ سوال بڑا اہم ہے کہ ’’کیا 2018ء کے قومی انتخابات میں انتخابی نتائج تسلیم کر لیے جائیں گے‘‘ یہ اس لیے کہ ابھی سے ہی ن لیگ نے دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا ہے۔ پنجاب میں پروفیسر حسن عسکری کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے پر اعتراض اٹھایا گیا ہے جبکہ پروفیسر صاحب کا کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ان کے تجزیے اور تبصرے ان کی ذاتی حیثیت میں ہوتے تھے۔ اب پروفیسر حسن عسکری نگران وزیر اعلیٰ کا حلف بھی اٹھا چکے ہیں۔ ان کے جو اختیارات ہیں وہ بھی آئینی حدود میں رہتے ہوئے انتہائی محدود نوعیت کے ہیں یعنی انتظامی امور کی نگرانی کرنا باقی انتخابی امور تو الیکشن کمشن آف پاکستان نے ہی نمٹانے ہیں… بہرحال ابھی سے ہی دھاندلی کا شور اٹھنا شروع ہو گیا ہے جو کہ افسوسناک بھی ہے اور خطرے کی گھنٹی بھی کیونکہ قومی انتخابات کے بعد انتخابی نتائج ہو سکتا ہے کہ ن لیگ تسلیم ہی نہ کرے اور ایک بار پھر ملک میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف نے دھاندلی کی بار بار نشاندہی کی مگر معاملہ دھرنوں کی شکل اختیار کر گیا تھا جس سے ماضی کا پورا دور غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار رہا۔ دھاندلی کا اصل عمل خود پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹوں کی گنتی کے مرحلہ پر ہوتا ہے۔ نگران حکومت چاہے کتنی ہی ایماندار اور مخلص کیوں نہ ہو وہ بھلا کس طرح پورے ملک کے پولنگ اسٹیشنوں پر دھاندلی کے عمل کو روک سکتی ہے۔ اصل ذمہ دار تو وہ حکومتی افسران ہوتے ہیں جو کہ اس انتخابی عمل کا عملی طور پر حصہ بنتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات کی مثال موجود ہے کہ نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کو خود الیکشن کمشن آف پاکستان نے مقرر کیا تھا کیونکہ حکومت اور اپوزیشن اس ضمن میں اتفاق رائے کرنے میں ناکام رہے تھے لیکن پھر بھی یہ انتخابات مکمل طور پر شفاف نہ تھے جتنی کہ خود اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے اعتراف کیا تھا کہ وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کروانے میں ناکام رہے تھے اور پھر انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا… ان انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے دھاندلیوں کے الزامات کے بعد دھرنا دیا اور نواز حکومت کے خلاف مہم چلائی… اب ذرا اندازہ کریں کہ کیا یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ نگران حکومتیں غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کروانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں… قومی انتخابات میں ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ امیدوار کئی کئی حلقوں سے ایک ساتھ انتخاب لڑتے ہیں یہ سلسلہ یکسر ختم ہونا چاہیے امیدواروں سے اگر پوچھا جائے کہ اتنے زیادہ حلقوں سے انتخابی مہم کس طرح چلائیں گے؟ اور پھر کس بنیاد پر آپ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ آپ ان حلقوں کے عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں ہم نے یہاں برطانیہ کے انتخابات میں دیکھا کہ یہاں کوئی امیدوار اپنے حلقہ انتخاب کے علاوہ کسی اور حلقے سے انتخاب نہیں لڑتا جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے حلقے پر ہی توجہ مرکوز رکھتا ہے اور اس حلقے کے عوام کے مسائل حل کرتا ہے باقاعدہ طور پر اپنے حلقے میں سرجری(دفتر) کو برقرار رکھتا ہے اور عوام کے مسائل سنتا ہے اور پھر اپنے ووٹروں کی بلا امتیاز خدمت کرتا ہے۔ پاکستان میں بنیادی طور پر بلدیاتی نظام کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور ان اداروں کو فعال بنایا ہی نہیں گیا بلدیاتی ادارے ہی مقامی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بلدیاتی نمائندوں ہی کی اعلیٰ کارکردگی ان کو صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ممبران کی صف میں شامل کروانے میں بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ ان اداروں سے ہی ان کی تربیت ہوتی ہے پوری دنیا میں جہاں برطانوی طرز (ویسٹ منٹر) کا پارلیمانی نظام ہے وہاں خاص طور پر قومی انتخابات کے لیے نگران حکومت کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ہے۔ برسراقتدار حکومتیں ہی نگران حکومت کا کردار ادا کرتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں انتخابات کروانے کی غرض سے الیکشن کمشن کو بااختیار بنا دیا جاتا ہے اور پھر انتخابات کے تمام تر انتظامات اور تمام ذمہ داری الیکشن کمشن کے پاس ہوتی ہے… ایسا پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا کیوں الیکشن کمشن آف پاکستان کو با اختیار بنایا جاتا؟ اس ادارے کو آزاد اور طاقت ور بنا دیا جائے تو پھر دیکھیں کہ دھاندلی جیسا ماحول خود بخود ہی دم توڑ جائے گا شرط یہ ہے کہ اس ادارے پر حکومتی کنٹرول نہ ہو… ان اقدامات کے بعد کسی صورت میں بھی نگران حکومت کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو گی مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے اور اس عمل کو حقیقی جمہوری روح سے روشناس کرانے کے لیے جو بنیادی اصلاحات اور تبدیلیاں ضروری ہیں۔ ان پر کبھی بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا حکومتیں تمام تر توجہ نگران حکومت کے قیام اور اپنے من پسند افراد کو اس عمل میں شامل کروانے پر مرکوز رکھتی ہیں لہٰذا پھر انتخابات کے بعد دھاندلی اور الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اصل حقیقت بھی یہ ہے کہ سیاستدان جان بوجھ کر ان اصلاحات کو لانا ہی نہیں چاہتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر غیر جانبدار اور طاقت ور الیکشن کمشن آف پاکستان اس قابل ہو گیا کہ جو صاف شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کروائے گا تو پھر خود ان کے اپنے سیاسی عزائم دم توڑ جائیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن لڑا ہی کاروبار اور مفادات کے لیے جاتا ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ملک میں ایک دو کے سوا تمام سیاسی جماعتیں سیاسی جاگیرداروں کے قبضے میں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد اب تک جاگیرداروں اور وڈیروں کے علاوہ بڑے بڑے کاروباری حضرات نے خود جان بوجھ کر صحت مند جمہوری سیاست کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیا۔ اس دوران خاندانی اجارہ داری کو بھرپور انداز میں پروان چڑھایا گیا۔ موروثی سیاست اس وقت پورے ملک میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ ذات برادری اور جاگیرداروں کی چودھراہٹ نے سیاست کو ایک نیا رنگ دے رکھا ہے۔ کرپشن میں بھی اضافہ ہوا ہے اور قومی اداروں کی افادیت بھی کم ہوئی ہے ملکی اداروں میں جمود کی سی کیفیت ہے کسی نہ کسی حوالے سے اعلیٰ افسران کی ہمدردیاں مخصوص سیاسی گروپس کے ساتھ وابستہ ہیں جو کہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔