یہ ایک دل خوش کن منظر تھا۔پاکستان کا وزیر اعظم جس کے اپنے ملک میں اپوزیشن اس کے خلاف متحد ہوگئی ہے،ریاض میں منعقدہ فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کانفرنس سے اپنے مخصوص سادہ ، واضح اور دو ٹوک انداز میں بغیر پرچی کھولے سوالات کے جوابات دے رہا تھا۔ اس کا ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار تھا جو اس کی حکومت کا پیدا کردہ نہیں تھا۔ اسے ہر طرف سے طعن و تشنیع کا سامنا تھا۔ اپنے بھی خفا اس سے تھے بے گانے بھی ناخوش۔ اس کے ملک کو لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور نااہلی سے مال مفت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لٹانے والے اس پہ خندہ زن تھے کہ اب وہ اس دلدل سے اس ٹوٹی پھوٹی کشتی کو کیسے نکالے گا۔ ہاتھ پہ ہاتھ مار کر تالی بجانے والے ، ٹھٹھا اڑانے والے، ناتجربہ کاری کا طعنہ دینے والوں کو شاید علم نہیں تھا کہ معاملات میں خرابی نیت سے شروع ہوتی ہے اور ان میں بہتری بھی یہیں سے آتی ہے۔ بدکرداری میں جو شے سب سے پہلے خراب ہوتی ہے وہ نیت ہے، کردار کی باری تو بعد میں آتی ہے۔عمران خان کے خلاف اکھٹی ہونے والی اپوزیشن کا مسئلہ یہی تو ہے۔ ہنسی، ٹھٹھے اور استہزا کے اس ماحول میں وہ لیکن نہ صرف ریاض پہنچا بلکہ کامیاب و کامران بھی لوٹا۔ میں نے عمران خان کی ریاض میں گفتگو کا ایک ایک لفظ غور سے سنا۔ انہوں نے نہ صرف بلا جھجھک نئے پاکستان کو ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے طور پہ پیش کیا بلکہ پاکستان کے معاشی حالات ایک درست فورم پہ کھول کر رکھ دیے۔ یہ وہ فورم تھا جہاں امداد نہیں ملتی ،تجارت ہوتی ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے ضروری ہے کہ آپ کی مارکیٹنگ اچھی ہو۔ آپ کو علم ہو کہ آپ کے پاس بیچنے کے لئے کیا ہے اور وہ کس قیمت پہ بیچا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کی تیاری بہترین تھی۔ گزشتہ حکومت کی کرپشن کا ذکر انہوں نے میزبان خاتون کے سوال کے جواب میں کیا۔اگر وہ سوال نہ کرتی تو ممکن ہے وہ یہ تذکرہ نہ کرتے لیکن گزشتہ دور حکومت میں وہ اتنے تواتر سے حکمران طبقے کی کرپشن پہ کڑی تنقید کرتے رہے ہیں کہ میزبان اپنے ساتھ جو نوٹس لائی تھی اس میں ان کی ان تقریروں کا حوالہ موجود تھا۔ انہوں نے سامنے بیٹھی امکانات سے بھری دنیا پہ واضح کیا کہ ہم اس دوڑ پہ پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔ ہمارے پاس نہ وسائل کی کمی ہے نہ پوٹینشل کی۔ ہم دنیا کی وہ خوش قسمت قوم ہیں جس کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پہ مشتمل ہے۔ہماری زمین زرخیز اور قدرتی وسائل سے بھری ہوئی ہے۔مسئلہ گڈ گورننس اور کرپشن کا ہے۔ ہمارا تزویراتی محل وقوع ہی سرمایہ کاری کے لئے کافی ہے جس سے چین فائدہ اٹھا رہا ہے۔انہوں نے چین اور بھارت کے ساتھ افغانستان کا تذکرہ کیا جسے وہ کبھی نہیں بھولتے۔ افغانستان میں امن پورے خطے ہی نہیں دنیا کے لئے سرمایہ کاری کا راستہ کھول سکتا ہے۔ جب ان سے امارات کے ایک تاجر نے سوال کیا کہ بھارت جو آپ کے پڑوس میں دوسری بڑی معیشت ہے کیا آپ اس کے ساتھ تجارتی روابط استوار کریں گے تو اس کے لہجے کی چبھن میں نے ہی نہیں میرے وزیراعظم نے بھی محسوس کی۔ اس تلخی کو انہو ں نے بڑی سادگی کے ساتھ لوٹا دیا۔ انہوں نے کہا کہ بے شک وہ بڑی معیشت ہیں اور ہم تجارت کے لئے ان کے ساتھ کھلا دل رکھتے ہیں لیکن ان کا اپنا دل تھوڑا تنگ ہے اور وہ بھی کیا کریں انتخابات سر پہ ہیں اور پاکستان دشمنی کا چورن بھارت میں اچھا بکتا ہے تو ہم نئے سرے سے انتخابات کے بعد بات کریں گے۔یاد رہے امارات اور اس سے چالیس گنا بڑے بھارت کے درمیان تجارتی حجم 2020ء تک ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اس سال فوربیز نے امارات میں سو بااثر ترین بھارتیوں کی فہرست جاری کی ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق سرمایہ کاری اور تجارتی کمپنیوں سے ہے۔ایسے میں سوال بھی برمحل تھا اور جواب بھی تسلی بخش ،جس میں بھارت کی بڑی معیشت اور تجارتی حجم سے مرعوبیت کی جھلک تک نہ تھی بلکہ اس بڑے معاشی حجم کے باوجود بھارت کی روایتی چھوٹی سوچ کے لئے جو پاکستان دشمنی کے گرد گھومتی ہے، استہزا کا ایسا پہلو تھا جس میں حقیقت کا اعتراف بھی تھا اور اپنی خامیوں کے ازالے کا عزم بھی۔ انہوں نے ایک ماہر بزنس مین کی طرح جو کہ وہ ہیں نہیں پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پہ پیش کیا جو دہشت گردی سے نجات پا چکا ہے اور سرمایہ کاری کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا ذکر اس طرح نہیں کیا جیسے ماضی میں سول اور فوجی حکام کرتے آئے ہیں بلکہ اس طور پہ جیسا کہ کیا جانا چاہئے کہ پاکستان ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا گیا تھا جو اس کی تھی ہی نہیں اور اس جنگ میں ہم نے اسی ہزار جانوں کی قربانی دی۔اس فورم پہ نائن الیون کا کئی بار تذکرہ ایک پہلے سے بپھرے ہوئے ملک کو مزید بھڑکا تو گیا ہوگا لیکن دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے سامنے پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پہ پیش کرگیا جس پہ شدید سیاسی دبائو تھا اور ایک غلط فیصلے کے نتیجے میں وہ دہشت گردی کے اس خوفناک گرداب میں پھنس گیا تھا جہاں سرمایہ کاری ممکن ہی نہیں تھی۔ اس طرح بالواسطہ طور پہ پاکستان کی معاشی بدحالی کا ذمہ دار وہ ملک ہے جو آج خود ریاض کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہیں جب ایک سعودی سرمایہ کار نے کہا کہ سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع کا علم ہی نہیں تو جی چاہا کہ ہر خوشی غمی پہ سارے خاندان سمیت، سرکاری خرچے پہ سعودی عرب کے سیر سپاٹے پہ نکل جانے والوں سے پوچھا جائے کہ دس سال سیاسی پناہ کے دوران اپنے کاروبار تو خوب جما لے گئے حتی کہ رشتے داریاں بھی بنا لی گئیں لیکن مزید پانچ سال حکومت کرنے کے باوجود وہ شاہی مملکت کو یہ نہ بتا سکے کہ پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے مواقع کہا ں ہیں۔ شاید ان کا سارا زور مفت تیل لینے اور امدادپہ رہا لیکن میں نے اپنے کالموں میں بارہا لکھا کہ محمد بن سلمان کا نیا سعودی عرب امداد نہیںتجارت کا قائل ہے اس سے دونوں ممالک کے عشروں پہ مشتمل تعلقات پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ امداد باہمی تجارت میں بدل جائے گی اور یہی ہوا ہے۔نوے کی دہائی میں پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے جواب میں لگی امریکی پابندیوں کے بعد دو بلین ڈالر کے مفت سعودی تیل نے پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلایا تھا۔ آج تین ارب ڈالر کی تاخیری ادائیگی پہ تیل دیا گیا ہے اور تین ارب ڈالر ادائیگی میں توازن کی مد میں قرضے کے طور پہ ڈالے گئے ہیں باقی پٹرولیم کے شعبے میں سرمایہ کاری ہوگی۔ یہ پاکستان کے اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے لئے ضروری ہے جس نے ایسے وقت میں اس کانفرنس میں شرکت کی ہے جب سعودی عرب پہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد امریکی دبائو پہ بیشتر امریکی اور یورپی کمپنیوں نے شرکت سے معذرت کرلی تھی۔