صدر مملکت کے دستخط کے بعد نیب کا ترمیمی آرڈی ننس ملک میں نافذ ہو گیا ہے۔ اس آرڈی ننس کے متعلق عوامی سطح پر پہلا تاثر یہ ہے کہ حکومت نے تاجروں اور بیورو کریٹس کو نیب کے دائرہ کار سے الگ کر کے اپنے اصولوں پر بہت بڑا سمجھوتہ کیا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈی ننس کے مطابق نیب 50کروڑ روپے سے زاید کی بدعنوانی پر کارروائی کر سکے گا‘ سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کو کافی محدود کر دیا گیا ہے۔ نیب کو ٹیکس‘ سٹاک ایکسچینج ‘آئی پی اوز سے متعلق معاملات میں حاصل اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’احتساب بیورو کا کام صرف عوامی عہدہ رکھنے والوں کی جانچ پڑتال کرنا ہے‘ ملک میں کاروباری مواقع آسان بنانا حکومتی ترجیحات میں شامل ہے اور حکومت کی معاشی ٹیم کاروباری برادری کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔‘‘ ریاست کا نظام ہموار طریقے سے رواں رہے اس کے لئے اچھے اور دیانت دار سرکاری افسران کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاست اپنی مالی ضروریات اپنے وسائل سے پوری کرتی رہے تو ملک بیرونی مداخلت کے سانپ کے ڈنگ سے کافی حد تک بچا رہتا ہے۔ پاکستان کے مسائل کا آغاز اسی نکتے سے ہوتا ہے۔ سرکاری افسران کا انتخاب رائج تعلیمی معیاروں کو بروئے کار لاکر سب سے اعلیٰ کارکردگی والے افراد میں سے کیا جاتا ہے۔ ان کی انتظامی تربیت کی جاتی ہے لیکن کوئی ایسا نقص اس نظام تربیت و انتخاب میں موجود ہے کہ کچھ اعلیٰ سرکاری افسران ریاست کے وفادار نہیں ثابت ہوتے۔ حد سے زیادہ سیاسی مداخلت نے انہیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی خاندانوں کا وفادار بنا کر رکھ دیا۔ کتنے ہی ایسے افسران ہیں جو سابق حکمرانوں سے وفاداری نبھاتے ہوئے ریاستی مفادات اور عوامی اعتماد کو نقصان پہنچاتے رہے۔ اب تک بہت سوں کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ تفتیش اور انصاف کا نظام دیکھیے کہ نیب نے ایسے افسروں کو ڈیڑھ ڈیڑھ سال سے حراست میں لے رکھا ہے مگر ان کے خلاف ریفرنس دائر نہیں ہو سکا۔ یہ احتساب کے ادارے‘ نظام یا پھر بیورو کریسی کا کھیل ہے‘ جو کچھ بھی ہے اس کی وجہ سے عوام کا یقین مجروح ہو رہا ہے۔ تاجر طبقہ روزگار کی فراہمی‘ ٹیکس محاصل اور پیداواری عمل میں اضافہ کے سلسلے میں ریاست کا مددگار ہوتا ہے۔ ہر وہ ریاست جو خوشحال ہے وہاں کا تاجر ٹیکس ادا کرتا ہے‘ سیاست اور کاروبار کو الگ رکھتا ہے اور ہر طرح کی قانون شکنی کو اپنے کاروبار کے لئے ضرر رساں تصور کرتا ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے بہتر برس ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں کئی حکومتوں نے کاروباری لین دین کو دستاویزی بنانے کی کوشش کی۔ہر بار تاجر برادری نے اس عمل کی مزاحمت کرتے ہوئے ہڑتال اور شٹر ڈائون کا راستہ اپنایا۔ تاجر برادری ہوائی اڈوں پر اپنے لئے مراعات چاہتی ہے‘ کولڈ سٹوریج کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ موسمی اثرات سے سامان کو محفوظ رکھا جا سکے‘ کاروبار میں رکاوٹ بننے والی چیزوں کو ہٹانا چاہتے ہیں مگر حکومت جب انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لئے ٹیکس ادا کرنے کا کہتی ہے تو ان کا ردعمل عجیب و غریب صورت اختیار کر لیتاہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بہت سے کاروباری افراد سیاست دانوں کے فرنٹ مین‘ کاروباری شراکت دار یا پھر آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی حامی جماعت کی حکومت میں ناواجب مراعات پاتے ہیں۔ یہاں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ مخصوص گروپ کو بجلی پیدا کرنے والے بند یونٹ پر بھی ادائیگی کی جاتی رہی۔ نیب کے ترمیمی آرڈی ننس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ نیب بہتر کارکردگی کی تمام تر خواہش کے باوجود اپنے کام پر مرتکز نہیں ہو پا رہا۔ کوئی ایک بڑا کیس ایسا نہیں جس میں نیب نے بروقت اور تسلی بخش انداز میں مقدمہ تیار کیا ہو۔ پانامہ لیکس کا معاملہ اور تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اس پر کارروائی نہ کرتی توشاید نیب اس معاملے میں بھی قابل ذکر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہتا۔ اس امر کا تقاضا تھا کہ نیب کے سامنے طاقت بن کر آنے والوں کو ریاست گرفت میں لاتی لیکن نیب کا ترمیمی آرڈی ننس بتاتا ہے کہ عمران خان طاقتوروں کے احتساب کی جو بات برسوں تک کرتے رہے ہیں وہ کسی وجہ سے کمزور پڑ رہی ہے۔ کچھ حلقوں کا کہناہے کہ نیب کے ترمیمی آرڈی ننس کا مقصد حکومتی جماعت کے بعض افراد کو بچانا ہے۔ اس سلسلے میں سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے مشیر زلفی بخاری کا نام ان افراد کے طور پر لیا جا رہا ہے جنہیں نیب کے ترمیمی آرڈیننس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بیورو کریسی اور تاجروں سے عوام کو شکایات ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ بگڑی ہوئی گورننس میں بہتری لانے کے لئے اعلیٰ سرکاری افسران کا احساس عدم تحفظ دور کرنا ہو گا‘ ایسا ہی تاجروں کے حوالے سے سوچا جا رہا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ تاجروں اور بیورو کریٹس کو نیب کی غیر ضروری پوچھ گچھ سے بچا کر ملک کی انتظامی و کاروباری فضا بہتر ہونے لگے گی۔ قبل ازیں معاشی اصلاحات اور عالمی اداروں کے ساتھ ازسرنو معاملات کر کے حکومت نے معاشی ترقی کی بنیاد رکھ دی جس کی افادیت کی گواہی آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک کی رپورٹس اور انسانی ترقی کے جائزوں میں دی جا رہی ہے۔ اس ترمیمی آرڈی ننس سے حکومت نے جو نتائج اخذ کرنے کا سوچا ہے اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر کیا یہ سوال نظر انداز کئے جانے چاہئیں کہ سیاستدانوں کے لئے منی لانڈرنگ سے لے کر ٹیکس چوری تک کے معاملات ان کے قریبی کاروباری افراد انجام دیتے ہیں۔ ایسے افراد کے خلاف پولیس اور ایف آئی اے کارروائی کرتے تو معاملات برسوں قبل درست ہونا شروع ہو جائے۔ انتظامی اور کاروباری معمولات کا ریاستی ضروریات کے مطابق طے نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں ان طبقات کی طاقت زیادہ ہے جو ناقص نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔