تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی چوہدری مسعود‘ رحیم یار خاں کی تحصیل لیاقت پور سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے وہ اس سے پہلے بھی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں‘ خوش پوش‘ خوش مزاج اور خوشحال آدمی ہیں گاہے وہ بزدار حکومت سے شاکی نظر آئے‘ اپریل میں سیاسی ہلچل کا دور شروع ہوا تو وہ اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونا چاہتے تھے‘ تب میاں اسلم اقبال اور دیگر دوستوں کے سمجھانے پر انہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور ان کے تحفظات دور کر دیے گئے۔گزشتہ چند ہفتوں سے انہیں دھمکانے ‘ خوفزدہ کرنے کے ساتھ ترغیب و تحریص سے مائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ خوف اور لالچ دونوں بیک وقت حملہ آور ہوں تو کوئی مرد میدان ہی کھڑا رہ سکتا ہے‘ ان کی کمزوری دشمن پر آشکار تھی،یقینا انہیں پہلے سے جال میں پھنسا لیا گیا تھا۔اسی برتے پر رانا ثناء اللہ نے پانچ ممبران کے ادھر ادھر ہونے کی بات کی تھی، ادھر ادھر ہونے والوں میں وہ پہلا تھا اس نے خود کو کمزور اور بزدل ثابت کیا اور انجانے خوف کو جواز بنا کر لالچ کی راہ اختیار کی۔سننے میں آیا ہے کہ ووٹ نہ دینے کا سودا چالیس کروڑ میں طے ہوا اور چوہدری مسعود فیصلے کے دن سے پہلے ہی ترکی کے شہر استنبول کے لئے پرواز کر گئے۔ان کے پرواز کرتے ہی ڈھونڈیا پڑ گئی‘ جلد ہی کھوج لگا لیا گیا‘ ٹی وی چینل کی سرچنوں میں آ گئے، شاید پہلی اور آخری مرتبہ ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘ نام تو ہو نہ سکا مگر بدنامی ایسی کہ وہی برادری اور شہر کے لوگ جو سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے‘لوٹے لے کر ان کے گھر کے باہر جمع ہو گئے، خود تو استنبول کے ہوٹل میں بستر پر کروٹیں بدل بدل کر اندیشوں کی زد میں ہی۔البتہ ان کے اہل خانہ دہرے عذاب میں‘چوہدری صاحب آج کے بعد رکن اسمبلی کے طور پر شاید کبھی واپس نہ آ سکیں۔پاکستان واپس لوٹنے پر وہ ایک ایسی سرزمین میں داخل ہوں گے جو انہیں پہلے کی طرح نظر نہیں آئے گی‘ وہ اپنے ہی ملک میں خود کو اجنبی اجنبی اور غیر ضروری محسوس کریں گے۔ اگر استنبول کے کسی جریدے میں ان کی تصویر اور ہوٹل کا پتہ چھپ جائے تو پھر کیا ہو؟ کتنے ہی پاکستانی اور ترک شہری ان کا گھیرائو کر لیں گے‘ کیا انہوں نے کبھی تین مرتبہ منتخب وزیر اعظم کی حالت نہیں دیکھی‘ جو پاکستان میں اربوںروپے سے بنائے گئے ۔ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اور مہنگے گھر میں آرام کرنے کو واپس آ سکتے ہیں۔ نہ لندن میں گھر سے بہر نکل کر آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں‘ جناب صاحب آپ ان کے مقابلے میں کس کھیت کی مولی ہیں!اگر کوئی ہمت کر کے ترکی میں آپ کے کرتوت تصویر اور ایڈریس کے ساتھ شائع کروا دے تو یقینا آپ ترک شہریوں کے ردعمل کے بعد دنیا بھر میں مشہور ہو جائیں گے‘ بدنامی کی یہ شہرت آپ کو لندن کے ایون فیلڈ میں مہمانی کا شرف بخش سکتی ہے۔بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا‘ ہو گا ضرور ہو گا‘ آپ یقینا پاکستان بھر میں شہرت پا چکے ہیں۔ پاکستان میں آج کل سیاست کی چالوں کو سیاسی حکمت عملی کی بجائے‘ دھونس اور لالچ سے پراگندہ کر دیا گیا ہے‘عمران کے خلاف ہر طرف ہر کوئی فائول کھیل رہا ہے اور اسے بھی کھیل کے اصولوں سے ہٹ کر کھیلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘ غینم کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ اگر آپ کے پاس نہ ہوں تو دشمن کا مقابلہ دستیاب ہتھیاروں سے کیا جاتا ہے۔تحریک انصاف کے حریفوں نے کوئی ہتھیار‘ کوئی چال کوئی حربہ اٹھا نہیں رکھا ،ہر کسی نے ہر طرف سے جارحانہ حملے کیے مگر اس نے ہتھیار اٹھائے بغیر محض اپنے بدن کی چستی اور ذہانت سے نہ صرف حملوں کو ناکام بنایا بلکہ اب تک میدان اسی کے ہاتھ رہا ہے۔ ٹینک توپیں‘ بندوقیں‘ میزائل سے مماثل سیاست کے تمام جارحانہ حربے استعمال کئے جا چکے ہیں کئے جا رہے ہیں مگر سیاست کے معرکے میں سب سے خطرناک ایٹم بم سے بھی کہیں خطرناک‘ موثر اور ہلاکت خیز ’’وہ ہے ‘‘ بپھرے ہوئے نوجوانوں کا ابنوہ کثیر‘ پاکستان میں نوجوانوں کی نبض پر عمران کا ہاتھ ہے ا۔س نے بڑے تحمل اور تدبر سے انہیں مشتعل ہونے سے روک رکھا ہے کیا ۔تحریک انصاف کے نوجوان تحریک لبیک والوں کی طرح ڈنڈے اٹھانے‘ پتھر مارنے‘ کاروں بسوں کو توڑنے‘ عمارتوں کو آگ لگانے‘ ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کرنے جی ٹی روڈ اور موٹر وے پر دھرنا دے کر انہیں بلاک کرنے کے ہنر سے آگاہ نہیں ہیں۔ تحریک لبیک نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کے ادوار میں انہیں دھول چٹائی۔مقبول اور پیروکاروں کی تعداد میں تحریک لبیک نے ملک بھر میں جتنے کارکن اور چاہنے والے ہیں ان کی کل تعداد کے مقابل تحریک انصاف کے کارکنوں کی تعداد صرف ایک شہر یا ضلع میں بھی ان سے زیادہ ہے۔ اگر عمران خاں کے ساتھ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ہرکاروں اور انصاف کے ایوانوں نے کھیل جاری رکھا تو عمران خاں کا ہو نہ ہو‘ کارکنوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔بپھرا ہوا ہجوم ’’سونامی‘‘ کی تباہ کاریوں سے زیادہ ہلاکت خیز ہے‘ فرانس‘ روس‘ چین کے انقلاب کے بعد ایران اور حالیہ دنوں میں سری لنکا سے سبق لینا سب کے مفاد میں ہے سری لنکا سوا دو کروڑ انسانوں کا ملک صرف سوا دو کروڑ نوجوان بپھر کے نکلے تو ہنر دھرے رہ جائیں گے۔ پاکستان میں پورے سری لنکا سے زیادہ آبادی صرف کراچی اور لاہور ضلع میں آباد ہے۔اگر آصف علی زرداری حمزہ شہباز کی پشت پناہی پولیس‘ خفیہ ادارے ایکس‘ وائے‘ زیڈ کرتے رہیں گے تو پھر ہجوم لبرٹی مارکیٹ میں جمع ہونے کی بجائے بلاول ہائوس اور بعض دوسری کمیں گاہوں تک آ سکتا ہے‘ بس اسے ایک شارے کی ضرورت ہو گیی۔لوگ جوق درجوق نکل کھڑے ہونگے۔اب کے میدان لاہور میں سجے گا۔ جس کے چاروں طرف شیخو پورہ‘ فیصل آباد‘ قصور‘ گوجرانوالہ ‘ ساہیوال اوکاڑہ‘ ٹوبہ ‘ جنگ ‘ سرگودھا‘ میانوالی پنجاب کے دور نزدیک کے ہر شہر سے آنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے، راستے کون روکے گا’ کنٹینر کون لگائے گا؟ ہے کسی کے پاس فرصت یا اختیار؟ ڈرو آنے والے دن سے جب کوئی مولانا بھاشانی کی طرح نعرہ زن ہو ’’جالو جالو آگن جالو‘‘ شعلوں کو بھڑکنے سے روک لو‘ جلتی پر تیل نہ ڈالو ،آپ کے محل زیادہ قریب ہیں۔اسٹیبلشمنٹ ‘ ملک بھر کی ساری کی ساری سیاسی پارٹیاں امریکہ کی حمایت عدلیہ کا صرف نظر ایک سوائی زیڈ کی خفیہ جارحیتیں ۔دولت کی ریل پیل‘ دھمکیوں کا ستور‘ سب ہوا میں اڑا دیا گیا کرایہ کے دانشور‘ لکھاری درجنوں ٹی وی چینل بے کار پڑے ہیں کسی کی شنوائی نہیں‘ بس ایک آواز گونج رہی ہے، سنی جا رہی ہے‘ راج کر رہی ہے ایک آواز عمران خاں کی‘ آواز(اکی دن کا ہے مہمان اندھیرا کب روکے رکا ہے سویرا) سوی طلوع ہو رہی ہے۔ آج جمعہ کا دن اور بائیس جولائی ہے ‘ اندھیرا پھیلنے سے پہلے عمران خاں کے نامزد چوہدری پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ بن چکے ہونگے۔انہیں کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔دھونس دھاندلی‘ خوف و ہراس سب ہوا ہو گئے ۔سترہ‘ جولائی کو ایک سترہ جولائی آج پھر برپا ہونے والا ہے۔عمران خان کا ہدف ضمنی انتخابات ہیں نہ پنجاب کی حکومت وہ پاکستان میں فوری شفاف انتخابات چاہتا ہے‘ فیصلے کا اختیار اس کے ہاتھ آیا چاہتا ہے‘ پنجاب اور کے پی حکومت کو برقرار رکھ کر بھی مرکزی حکومت ختم کی جا سکتی ہے۔راہ انہوں نے خود سجھائی‘ خود دکھائی اس راہ پر چلے گا کوئی اور۔مسلم لیگ کا ٹکٹ کوئی آپشن نہیں پچاس پچاس کروڑ کی بولی لگا کر بھی کیا پایا۔10ممبران قومی اسمبلی کے استعفیٰ محض ایک دن میں آ سکتے ہیں وہ بھی بعض تحریک انصاف کے آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کے وعدے پر‘ ان استعفوں کے بعد صدر کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم ’’وہی دن حکومت کا آخری اور انتخابات کا اعلان ہو گا۔