جب سے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کا حکمران جماعت کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا واکھیان ہے کہ نواز شریف کے بھارت سے رابطے پوری طرح عیاں ہو گئے ہیں، پاکستان کے دشمن پھولے نہیں سما رہے کہ نواز شریف مودی سے ڈکٹیشن لے رہا ہے۔ حکمران جماعت کے ترجمان بیک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ’’بھگوڑے‘‘ سابق وزیراعظم کو واپس لا کر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر یں گے۔ وزیراعظم اوران کے حواری ایسے بلند بانگ دعوے کرتے وقت زمینی حقائق کو طاق نسیان میں رکھ دیتے ہیں۔ حال ہی میں اس ضمن میں برطانیہ میں گرفتار ہونے والے واحد حکمران چلی کے ڈکٹیٹر آگسٹو پینوشے کی مثال بھی دی گئی ہے حالانکہ پینوشے ایک ایسا ڈکٹیٹر تھا جس نے امریکی سی آئی اے کے کہنے پر نہ صرف اپنے ہزاروں مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارا بلکہ چلی کے منتخب صدر سیلواڈورالینڈے جو کیمونسٹ نظریات کے حامل تھے ،ان کو بھی تہہ تیغ کر دیا تھا۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے ان کی ایک آمر مطلق سے جس نے اپنے عوام پر بے پناہ ظلم ڈھائے کے ساتھ کیا مماثلت بنتی ہے۔ میاں نواز شریف میں بڑی خرابیاں ہونگی لیکن انہیں پینوشے جیسا سفاک ڈکٹیٹر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میاں صاحب پر یہ الزام تو لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بھاری مینڈیٹ سے سرشار ہو کر اپنے دوسرے دور حکومت میں جمہوری اداروں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ خان صاحب نے پہلے تو یہ کریڈٹ لیا کہ نواز شریف کے اے پی سی سے خطاب کو نشر ہونے سے رکوانے کے حوالے سے پیمرا کو ہدایت کر دی تھی کہ خطاب دکھانے دیں ہمیں ان کے بیانیے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف خود عوام کے سامنے ایکسپوز ہوںگے لیکن میاں صاحب کی تین تقریروں کے بعد حکومت کا قوت برداشت کا مادہ ختم ہو گیا اور مسلم لیگ ن کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی میں تیسری تقریر کے بعد مسلم لیگ ن کے رہبرپر پہلے کی طرح سنسرلگ گیا۔ عمران خان کی حکومت کا دو سال سے زائد کا عرصہ جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے اتنا قابل فخر نہیں ہے۔ اس سے پہلے آصف زرداری کے ایک انٹرویو پر عین نشریات سے قبل پابندی لگا دی گئی تھی ،یہی حال مریم نواز کے ایک انٹرویو کا ہوا۔ سیاسی حلقے پہلے ہی حیران تھے کہ عمران خان میں یکدم برداشت کا مادہ کیسے پیدا ہو گیا۔ اب جوں جوں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے میڈیا پر پابندیاں بھی اسی تیزی سے لگائی جا رہی ہیں۔ حکومت اپنی خراب گورننس کو میڈیا کے خلاف تعزیری اقدامات سے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کے سانحے کے حوالے سے بھی حال ہی میں کوریج پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بجائے اس کے پنجاب حکومت کے فیورٹ سی سی پی اولاہور کونااہلی کی بنا پر فارغ کیا جاتا، میڈیا پر پابندی کے ذریعے ان کی جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ہم اپوزیشن کی ڈینگوں سے ڈرنے والے ہیں اور نہ ہی خائف لیکن عملی طور پر اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ اپوزیشن کے رہنما بھی کوئی متقی پرہیزگار نہیں ہیں لیکن اب لگتا ہے کہ اپوزیشن کی مبینہ کرپشن کی داستانوں پر جن کے مطابق حزب اختلاف کے ارکان نے اپنے دور اقتدار کے دوران اربوں، کھربوں روپے کی کرپشن کی لیکن جس بھونڈے انداز سے پراپیگنڈا مشین کو تیز کیا گیا ہے ان الزامات کی کاٹ بھی جاتی رہی ہے اور اب جھاڑ پونچھ کر ایک پرانے فارمولے کو نئے انداز سے آزمایا جا رہا ہے اور وہ ہے میاں نواز شریف کو غدار قرار دینا اور ان کی حب الوطنی پر نئے نئے سوالات اٹھانا۔ جس طرح سابق وزیر اعظم کے آخری دور میں تواتر کے ساتھ یہ پروپیگنڈا کیا گیا تھاکہ وہ بھارت کے ایجنٹ ہیں، مودی ان کا یار ہے،اور یہ نعرہ بھی گھڑا گیا ’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘‘۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت کرایا گیا اور جیسے ہی میاں نواز شریف کی چھٹی ہوئی یہ پروپیگنڈا مہم بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ اب یہ پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال کر پھر عوام کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ اب بقول وزیراعظم عمران خان، نواز شریف مودی کی زبان بول رہا ہے۔ کبھی کسی نے یہ سنا ہے کہ نریندر مودی نواز شریف یا آصف زرداری کی آواز میں بات کر رہا ہے لیکن ہم نے تو غدار قرار دینے کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں جوآجکل دن رات چل رہی ہیں۔ اگر پاکستان میں غدار کھل کھیل رہے ہیں تو ان الزامات کی بوچھاڑ کی سموک سکرین میں یقینا بچ کر نکل جائیں گے۔ ملکی سیاست اور خارجہ پالیسی بھی بازیچہ اطفال بنی ہوئی ہے۔ پاکستان 22 کروڑ سے زائد آبادی کا ملک ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن ہماری ذہنی ناپختگی کا یہ حال ہے کہ آجکل کے دور میں اپوزیشن کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر الو سیدھا کیا جا رہا ہے ،حالانکہ اگر اس سنگین الزام میں ذرہ برابر بھی حقیقت ہوتی تو ایسے ملزموں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جاتی اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے کہ غدار قرار دینے کی فیکٹریاں بند کی جائیں۔ چور چور، پکڑ و بھاگنے نہ پائے کا راگ الاپنے کے بجائے اپوزیشن سے تجدید تعلقات کی جائے۔ ملک کے سسٹم کو جوخطرات لاحق ہیں ان کا مداوا کریں لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ سارا بیانیہ محض نفرت کی سیاست اور اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو فروغ دینے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جن لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے ان کو درگزر کرتے ہوئے چھوڑ دیا جائے لیکن درست اور دیرپا احتساب اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس سے انتقامی کارروائیوں کی بو نہ آتی ہو۔ نہ جانے وہ دن کب طلوع ہوگا جب ہم شخصیات کے بجائے مضبوط، موثر اور پائیدار اداروں کی تشکیل کر پائیں گے۔