ایسے پراگندہ ماحول میں کون ان سینہ فگارنوجوانوں کو یاد کرے گا اور کون اس اذان کا ذکر کرے گا جس کی تکمیل کے لئے ایک د و نہیں بائیس زندگیاں وار دی گئیں ،ایک نے شفاف آسما ن تلے رب کبریا کی بڑائی بیان کرنے کے لئے اللہ اکبر کی صدا بلند کی دوسری طرف سے دھائیں کی آواز سے گولی چلی اوراذان دینے والے کا سینہ چھلنی کرگئی لیکن دوسرا سرپھرا کھڑا ہوگیاپہلے نے جہاں سے اذان چھوڑی تھی وہیں سے شروع کی پھر دھائیں دھائیں کی خوفناک آواز سے گولیاں چلیں اور یہ نوجوان بھی حق اداکر گیا یہ کلمہ طیبہ پڑھتا ہوا سرورکونین ﷺ کے دربار کی جانب چلا تو توحید رسالت کا تیسرا پروآنہ اٹھ کھڑا ہوا اس نے بھی وہیں سے اذان شروع کر دی ،یہ اپنی نوعیت کی منفرد اذان تھی جس کی تکمیل کے لئے وفا کو مسلک رکھنے والوں نے بائیس جانیں نچھاور کیں وہاں سے گولیاں چلتی رہیں یہاں سے اذان کی صدابلند ہوتی رہی ایک چپ ہوتا تو دوسرا کھڑا ہوجاتا ۔ یہ 89 ء برس پرانی بات ہے کشمیر پر ڈوگرہ راج پورے جبر سے حکومت کررہا تھا ، کشمیری مسلمان اکثرئت میں ہونے کے باوجود بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے ،مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمت کے دروازے بند تھے ،ریشم ،کاغذ، تمباکو، نمک ،اناج اور زعفران کی خرید و فروخت ڈوگرہ راج کی تحویل میں تھی،ہتھیار کا استعمال صر ف ہندؤں کا استحقاق تھا، گائے کے ذبیحے کا مطلب اپنی جان گنوانا تھا ان حالات نے کشمیری مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب پیدا کر رکھا تھا مسلمانوں کی تنگ آمد بجنگ آمدوالی کیفیت تھی لیکن انتظار تھا تو بارش کے پہلے قطرے کا جس کے بعد ابر نے کھل کر برسنا تھا اور جل تھل ایک کردینا تھا اور یہ بارش کا قطرہ بنا کون ؟ ایک پشتون زادہ خانساماں جس نے ڈوگرہ راج کو ہلا ڈالا۔ سخت نامساعد حالات میں 29اپریل 1931ء کے روز بڑی عید آتی ہے جموں کی میونسپل کمیٹی کے باغ میں مولانامفتی محمد اسحاق نماز عید کا خطبہ دے رہے ہوتے ہیں وہ حضرت موسیٰ ؑاور فرعون کا واقعہ بیان کرنے لگتے ہیں توہندو پولیس افسر کو جانے کیا تکلیف ہوتی ہے وہ آگے بڑھ کر انہیں روک دیتا ہے واقعہ کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے احتجاج ہوتا ہے جلسے جلوس ہوتے ہیں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن تحریک چلاتی ہے اسی دوران جموں ہی کی تحصیل سانبہ میں ایک تالاب کے پانی پر ہندو مسلم تنازعہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے جسکا حل مسلمانو ں پرتالاب سے پانی لینے کی پابندی کی صورت میں نکالاجاتا ہے ،اس امتیازی سلوک پر مسلمانوں کا اشتعال اور بھڑک رہا ہوتاہے کہ انہی دنوں سینٹرل جیل میں لبھو رام نامی انسپکٹرکسی بات پر مشتعل ہوکرایک مسلمان سپاہی کا بستر اٹھا کر پرے پھینک دیتاہے مسلمان سپاہی اس بدسلوکی کا عادی تھا لیکن اس بار معاملہ مختلف یوں تھا کہ بستر پرسرہانے پنج سور ہ بھی تھا لبھو رام کی افسران بالا سے شکائت کی جاتی ہے لیکن افسران کانوں میں تیل ڈالے ملتے ہیںاسی اثناء میں 20جون 1931ء کو ایک ایسا واقعہ ہوا کہ جس نے مسلمانوں کی برداشت ختم کردی کسی بدبخت جہنم کے ابدی رہائشی نے سری نگر کے ایک بیت الخلاء میں قرآن پاک کے اوراق رکھ دیئے بس پھر کیا تھامسلمان گھروں سے نکل آئے احتجاج جلسے جلوس شرورع ہوگئے،خانقاء معلیٰ سری نگر میں اسی حوالے سے جلسہ منعقد ہوامیرواعظ یوسف شاہ،احمداللہ حمدانی،مفتی جلال الدین جیسے بڑی شخصیات تقاریر کررہی تھیں ،شیخ عبداللہ نے بھی ان واقعات کی مذمت کی ان پرجوش تقاریر کے بعدمجمع چھٹنے کو تھا کہ ایک جذباتی نوجوان مجمعہ چیرتا ہوا آگے بڑھا اسٹیج پر آکر کہنے لگا’’مسلمانوں !اب وقت آگیا ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اینٹ کا جواب پتھر سے دوان قراردادوں ،اپیلوں سے یہ ظلم ختم نہیں ہوگا‘‘۔یہ نوجوان کوئی سیاستداں، خطیب یا مقرر نہیں تھا یہ توایک سیدھا سادا مسلمان اور انگریز فوجی افسر کا خانساماں تھا پشتون قوم سے تعلق رکھنے والے عبدالقادر کو ڈوگرہ سپاہیوں نے جھٹ سے دھر لیا ،بغاوت کا مقدمہ قائم ہوااب عبدالقادر کی رہائی کے لئے جموں کشمیر میں پرجوش تحریک چلنے لگی ’’باغی‘‘ کو عدالت لایا جاتا وہاں ہزاروں مسلمان پہلے سے پہنچے ہوتے،مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ مقدمے کی کھلی عدالت میں سماعت ہو ڈوگرہ راج یہ رسک لینے کو بھلا کیوں رضامند ہوتا مقدمے کی سماعت بند کمرے میں شروع ہوئی کشمیری بھی اپنے پشتون بھائی کی حمائت کے لئے سماعت پر پہنچنے لگے عبدالقادر سے زبان رنگ نسل کا رشتہ تو نہ تھا لیکن کلمے کا رشتہ تو تھا وہ بھلا یہ رشتہ کیسے بھلا دیتے؟ انہیں تیرہ جولائی بھی یاد تھی کہ اس روز عبدالقادر کے مقدمے کی سماعت ہونی ہے سماعت بندکمرے میں شروع ہوئی جج عدالت میںپہنچا او ر اس نے سب لوگوں کو کمرہ ء عدالت سے نکالنے کا حکم دیالوگ عدالت سے نکل کر احاطہ میں جمع ہوگئے کہ ترلوک نامی مجسٹریٹ نے وہاں موجود مسلمانوں کی گرفتاری کا حکم دے دیا لوگ پکڑے جانے لگے جنہیں چھڑانے کے لئے لوگ سینٹرل جیل کے پھاٹک پر جمع ہوگئے اور کچھ اندربھی داخل ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے صورتحال سخت کشیدہ تھی احتجاج ہورہا تھا کہ اسی اثناء میںنماز کا وقت ہوگیا ایک مجاہد نے اللہ اکبر کی آواز بلند کی تو ڈوگرہ سپاہی نے اسے گولی ماردی اسکے بعد دوسرا جوشیلا نوجوان کھڑا ہوگیاوہ اذان دینے لگا تو اس کا سینہ بھی چھلنی کر دیا گیا یہ سلسلہ چلتا رہایہاں تک کہ بائیس افراد جان سے گئے لیکن اذان ادھوری نہ چھوڑی ،تیرہ جولائی اسی قابل رشک ’’اذان ‘‘کا دن ہے لیکن ہمارے پاس ایسی باتوں کے لئے وقت کہاں ؟ ہمیں تو جے آئی ٹی جے آئی ٹی کھیلنی ہے قومی اسمبلی کے ’’حمام ‘‘ میں ایک دوسرے کو ننگا کرنا ہے ان کاموں کے لئے قومی اسمبلی سے بہتر جگہ بھلا کیا ہوسکتی ہے ۔یہ تو بھلا ہو ان ’’ہدایات کاروں ‘‘ کا کہ جن کی وجہ سے ہمارا قومی میڈیا چھ سطر کی ایسی خبریں بھی چلا دیتا ہے اور کوئی سن دیکھ بھی لیتا ہے ورنہ ہم کسی سے تیرہ جولائی کے بارے میں پوچھتے تو وہ شام چوراسی کے کسی خاں صاحب کی تہترویں سالگرہ بتا کر داد طلب نظروں سے دیکھنے لگتا اور ہم لب بھینچ کر اقبال کو یاد کرنے لگتے کہ: وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا