تسلسل کے ساتھ آڈیوویڈیو لیکس نے سویت سوشلسٹ ریاست یو ایس ایس آرکی یاد دلادی۔ اسی کی دہائی میں پاکستان میں مغربی دنیا سے چھپ کر آنے والے لڑیچر میں بتایا جاتاتھا کہ روسی شہری ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ کوئی دل کی بات نہیں کرتا۔ سب ’’سرکاری سچ‘‘ بولتے ہیں۔ حتی کہ میاں بیوی بھی حکومت کے خلاف حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ دھڑکا لگا رہتاہے کہ ان کا شریک حیات جاسوس بھی ہوسکتاہے۔ جوکل کلاں ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتاہے۔آج کل کے پاکستان کا بھی یہ ہی حال ہے۔ معلوم نہیں کون کس کی آڈیو بنارہاہے اور کون ویڈیو۔ شہریوں کی پرائیویسی کا تحفظ تو درکنارعالم یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی بیگم یعنی خاتون اوّل کی پرائیویسی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتاہے۔ کالیں ریکارڈ ہی نہیں کیں جاتی بلکہ انہیں لیک بھی کردیا جاتاہے۔ ملک کے وزیراعظم کے عہدے کا ایک تقدس ہوتاہے۔ افسوس! یہ تقدس بری طرح پامال کیا گیا۔ اس منصب کو بہت بے توقیر کیا گیا۔حتیٰ کہ یہ ایک مذاق بن چکا ہے۔ آڈیو لیکس اب تک جو سامنے آئی ہیں ان میں غیر اخلاقی گفتگو ضرور ہے لیکن ایسی گفتگو اشرافیہ میں معمولی کی بات ہے۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ایسے واقعات سے اٹیپڑی ہے۔ اس سے کئی گناہ زیادہ لغو واقعات پرویز مشرف کے دور میں بھی رونما ہوتے رہے۔ اقتدار کی غلام گردوشوں میں مشرف کی ہوش ربا رنگین دلچسپیوں کا ذکر عام تھا۔بھٹو صاحب کی شاموں اور محفلوں کے ذکر سے کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے گورنر جنرل غلام محمد اورسکندر مزرا کے شب وروز کے جو لچھے دار قصے لطف لے لیکر رقم کیے ہیں وہ سب کے سب قومی حافظے میں اب تک تر وتازہ ہیں۔ افسوس! اقتدار کے اعلیٰ ایوان میں متمکن شخصیات کی سمجھ میں یہ حقیقت نہیں آتی کہ سیاسی وابستگی اندھی تقلید کی ماندہوتی ہے۔ سیاسی شخصیات اور جماعتوں پر لوگ بالخصوص متوسط طبقہ جان چھڑکتاہے۔ یہ وابستگی آڈیو یا ویڈیو کے لیک ہونے سے متاثر ہوتی ہے اور نہ کرپشن کے الزامات یا مقدمات سے۔ ایسا ہوتا تو آصف علی زرداری کب کے قصہ پارینیہ بن چکے ہوتے۔ ان سے زیادہ میڈیا ٹرائل شایدہی دنیا میں کسی اور کا ہوا ہو۔ نوازشریف کا کوئی نام لیوا نہ ہوتا۔طاقت ور لوگ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ عمران خان اور نوازشریف دونوں ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ بدقسمتی سے ایک سڑکیں ناپ رہاہے۔ دوسرا لندن میں بیٹھ کر وطن آنے کے لیے سازگار حالات کا منتظرہے۔ دونوں کو زور زبردستی اقتدار سے باہر کردیا گیا ہے۔شہباز شریف کو اسٹبلشمنٹ مدتوں سے تعمیر وترقی کا گرو تصور کرتی رہی۔ وزیراعظم بن کر وہ بھی بری طرح پٹ چکے ہیں۔ شریف برادران کے معاشی جادہ گر اسحاق ڈار ترقی کا پہیہ رواں دواں کرنے کے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ پاکستان تشریف لائے لیکن نون لیگ کی مقبولیت کے تابوت میں کیل ٹھونکنے کے باوجود ابھی تک اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اپنے خلاف سارے مقدمات رفتہ رفتہ ختم کراچکے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو حکومت دینے کا تجربہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ حکومت کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ مختلف حیلے اور بہانے کرکے وہ اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن سے بھی بھاگ نکلی۔ الیکشن مہم عروج پر تھی لیکن خفیہ اداروں نے نون لیگ کو رپورٹ دی کہ وہ بلدیاتی الیکشن میں بری طرح پٹ جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے الیکشن سے راہ فرار اختیار کرلی۔ الیکشن کمیشن بھی ان کے راستے کے کانٹے خوشی سے چنتاہے۔ اب ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت قائم کرنیکا ڈھنڈروہ پیٹا جارہاہے۔ یہ آئیڈیا بھی کوئی نیا نہیں۔ مدت سے اسٹبشلمنٹ کا خیال ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے منسلک پاکستانی معیشت کی ڈھواں ڈول کشتی کو کنارے لگاسکتے ہیں۔ معین قریشی اور شوکت عزیز کی قبیل کے لوگوں کا پہلے بھی تجربہ کیا جاچکا ہے لیکن حققت یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ سیاست یہاں کے لوگوں کی رگ وریشہ میں رچی بسی ہے۔ سیاسی جماعتیں مضبوط اور لیڈرشپ ان کی کسی قیمت پر نچلے نہ بیٹھنے والی اورچیلنج کرنے والی ہے۔ ٹیکنو کریٹ ’’باباؤں‘‘ کا پاؤںزمین پر لگنے ہی نہیں دیاجائے گا۔ ان کی آمد سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان سراٹھائے گا۔قومی اثاثہ وہ اونے پونے بیچ دیں گے۔ جڑین ان کی پاکستان کی سرزمین ہیں ہی نہیں۔ لوگ انہیں استعمار کا کارندہ تصور کرکے نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ان کے فیصلوں کو سیاسی اونر شپ دینے والا کوئی نہ ہوگا بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ان ’’بزرجمہروں‘‘ کے خلاف متحدہ محاذ بنا کر کھڑی ہوجائے گی۔مہنگائی سے بھپرے ہوئے عوام بھی ان پر چڑھ دوڑیں گے کیونکہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ ایک اور ناکام تجربہ کرنے کے بجائے آئین کے مطابق ملک کو چلنے دیا جائے۔سیاست دان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالیں۔ میثاق جمہوریت ٹو کی طرف بڑھا جائے۔ ان تمام مسائل کو ایک ایک کر حل کیا جائے جن کی بدولت پاکستان دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔ جس کے شہر افریقہ کے شہروں سے بھی ابتر حالت میں ہیں۔ عدل اور انصاف کی فراہمی میں اس کا شمار دنیا کے کمزور ترین ممالک میں ہوتاہے۔ عسکری لیڈرشپ نے گزشتہ چند ماہ کے دوران باربار اس عزم کااظہار کیا کہ وہ سیاست سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کو فوج کی کمان سنبھالے ابھی محض چارہفتے ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام پیداکرانے میں کردار ادا کریں گے۔ ایسی روایات قائم کریں کہ کوئی بھی اسٹیک ہولڈران پر جانبداری کا الزام نہ لگاسکے۔ فوج کی سبکدوش لیڈرشپ کو اب آرام کرنا چاہیے۔انہوں نے جو کرنا تھا وہ کرچکے اور ملک اس کے نتائج بھی بھگت رہاہے۔ مورخ ہی ان کے کردار کاتعین کرے گا۔فرمائشی انٹرویوز، بیانات یا وی لاگ کراکر وہ سیاست دانوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باوجود کے حوالے سے لکھے ایک حالیہ کالم نے ان کی شخصیت کو مزید تنازعات کا شکار کیا ہے۔ کاش وہ یہ انٹرویو نہ دیتے۔ یہ انٹرویو ان کا بہت دیر تک تعاقب کرتارہے گا۔عسکری لیڈرشپایک ایسا الیکشن کرانے میں کردار ادا کرے جو صاف اور شفاف ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ پے درپے غلط فیصلوں کی بدولت پاکستان آج گہری کھائی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ معاشی طور پر کب کادیوالیہ ہوچکا ہے۔ محض رسمی اعلان باقی ہے۔ موجودہ صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمہ ہے۔ ایسا مکالمہ جو کیمرہ کی آنکھ سے ہٹ کر کیا جائے تاکہ مسائل کا ٹھوس حل تلاش کیا جاسکے۔عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولیں۔ضد اور اناّ کو ترک کرکے مذاکرات میں خود شریک ہوں۔ بصورت دیگر پارٹی کی سینئر لیڈرشپ کو یہ ذمہ داری سونپیں۔ تاکہ پاکستان موجودہ دلدل سے باہر نکل سکے۔