وزیراعظم عمران خان نے پہلی فرصت میں ہی جی ایچ کیو کا دورہ کر کے بہت اچھا کیا۔ یہ دورہ محض رسمی نہیں تھا، انھوں نے نیشنل سکیورٹی، دفاع اور دہشت گر دی کے حوالے سے آٹھ گھنٹے تک سیر حاصل بریفنگ لی۔ اس سے قبل وہ دفتر خارجہ کا بھی اسی قسم کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ خوش آئند ہے کہ ان کے پیش رو میاں نواز شریف نے کبھی اس قسم کا تکلف نہیں کیا، وہ زیادہ سے زیادہ وزیراعظم ہاؤس، سیکرٹریٹ میں فوجی قیادت کو طلب کر کے میٹنگ کر لیتے یا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر لیتے تھے۔ نومنتخب وزیراعظم ا ور ان کے وفد کو جو وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر مملکت برائے داخلہ امور شہریار آفریدی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر مشتمل تھا کو حسب توقع جی ایچ کیو میں مکمل پروٹوکول دیاگیا۔ عمران خان کی یہ ٹیم ان متعلقہ افراد پر مشتمل تھی جن کا جی ایچ کیو سے رابطہ آنے والے دنوں میں پڑتے ہی رہنا ہے۔ وزیراعظم نے یہ یقین دہانی کرائی کہ دفاعی استعداد بڑھانے کے لیے فوج کو تمام ممکنہ وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ دوسری طرف فوجی قیادت نے بھی جمہوری حکومت کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ ماضی میں فوج اور سویلین قیادت کے درمیان تعلقات کی بڑی تلخ تاریخ رہی ہے۔ وطن عزیز میں چار مرتبہ مارشل لا لگا اور میاں نواز شریف سمیت اکثر سیاستدانوں کا یہ گلہ رہا ہے کہ فوج ہمیںکام نہیں کرنے دیتی۔ لیکن یہ گلہ کرتے وقت سیاستدان اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان میں سے اکثر اچھی گورننس دینے کے بجائے اپوزیشن میں اسی فوج سے سازباز کر کے حکومتیں گرانے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔ اب لگتا ہے کہ عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں فوج نئی شروعات کرنا چاہتی ہے۔ ناقدین یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان تو جی ایچ کیو کی ہی پیداوار ہیں حالانکہ یہ الزام درست نہیں ہے۔ ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کا گلہ اپنی جگہ لیکن خان صاحب نے یہ الیکشن جیتا ہے اور ان کے مخالفین بھی انتخابات میں دھاندلی کا شکوہ کرنے کے باوجود انھیں عملی طور پر پانچ سال دینے کو تیار ہیں۔ وزیراعظم نے جس مرحلے پر دفتر خارجہ اور جی ایچ کیو کا دورہ کیا وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ پرسوں اسلام آباد آرہے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے جنرل جوزف وزیراعظم عمران خان اور دیگر رہنماؤں سے واضح طورپر طے کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ بات چیت کا بنیادی نکتہ مشترکہ دشمنوں اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی ہو گا۔ لیکن امریکی وفد کی آمد سے قبل ہی پاکستان کی 300 ملین ڈالر فوجی امداد کا پروگرام منسوخ کر کے امریکہ نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ اس کا پاکستان کے بارے میں موڈ کیسا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پینٹاگون کی طرف سے یہ اچانک اعلان ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے حالیہ دورہ اسلام آباد کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ اس دورے کے دوران پاکستان نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ امریکی انحراف پر ایرانی موقف کی حمایت کی اور کہا پاکستان اس مشکل گھڑی میں ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امدادی پروگرام بند کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان کو چاہیے امریکہ سے کہے فی الحال امریکی وفد دورے کی زحمت نہ کرے۔ بعض کا خیال ہے کہ مزید کشیدگی بڑھانے کے بجائے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ اگرچہ امریکی زعما کا یہ دورہ اسلام آباد میں محض سٹاپ اوور کی صورت میں ہی ہے اور ان کی اگلی منزل نئی دہلی ہے جہاں ان کے بھارتی قیادت سے سٹریٹیجک معاملات پر مذاکرات ہونگے۔ ایک اعلیٰ مغربی سفارتکار کے مطابق پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت سے ان امریکی رہنماؤں کے مذاکرات انتہائی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکی انتظامیہ سابق وزیراعظم نوازشریف سے ناخوش تھی کیونکہ وہ وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھنے کے باوجود کچھ ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے جبکہ عمران خان اپنے بیانات اور اقدامات کے ذریعے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ سکیورٹی اور خارجہ معاملات میں امریکہ سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے حامی ہیں۔ جمعہ کو عمران خان نے اینکر پرسنز سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ عزت سے پیش آئے، غلط بات نہیں مانیں گے۔ اصل بات افغانستان پر ہو گی جہاں امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان طالبان سے مذاکرات شروع کرانے میں امریکہ کی مدد کرے۔ عمران خان ماضی میں کہتے رہے ہیں کہ طالبان پرڈرون نہ پھینکیں بلکہ ان سے مذاکرات کر یں۔ ان بیانات کے حوالے سے انھیںبعض لبرل حضرات طنزاً ’طالبان خان‘ بھی کہتے رہے ہیں۔ وقت نے عمران خان کے موقف کو درست ثابت کر دیا ہے، اب وہی مغربی سفارتکار خان صاحب پر زور دے رہے ہیں کہ آ پ واقعی ’طالبان خان‘ بنیں اور طالبان سے ہمارے مذاکرات کرا دیں۔ یہ اچھا ہو اکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان کی مائیک پومیپو سے گفتگو کی روداد پر تنازع ختم کر دیا اور یہ اعلان کر دیا کہ ہمیں اب سیاسی طور پرآ گے بڑھنا چاہیے۔ اول تو پروٹوکول کی سطح پر کم از کم امریکی نائب صدر کو پاکستانی وزیراعظم کو مبارکبا د کا فون کرنا چاہیے تھا لیکن اگر وزیر خارجہ کا فون نو منتخب وزیراعظم نے لے ہی لیا تھا تو گفتگو کی روداد کے معاملے میں ذرا احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا جیساکہ امریکہ کی طرف سے جاری کردہ گفتگو کی روداد سے آشکار ہو گیا کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کی پناگاہیں ختم کرنے کی بات کی تھی۔ یہ باتیں وہ کئی مرتبہ ’ڈومور‘ کے حوالے سے پاکستان سے کرتے رہے ہیں۔ نہ جانے شاہ محمود قریشی نے ا س کو وقار کا مسئلہ کیوں بنا لیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نئی جہت طے ہو جائے گی جس کے خدوخال پہلے ہی واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے معاملے میں انتہائی مثبت رویہ ہے، وہ امریکہ کے علاوہ بھارت سے بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اورکشمیر سمیت تمام مسا ئل پر بات چیت کے حامی ہیں۔ آرمی چیف کی عمران خان کی حلف برداری کے موقع پر ان کے ذاتی مہمان مشرقی پنجاب کے وزیر بلدیات اور بھارتی نیشنل کانگریس کے رہنما سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سے جپھی ایک اچھی سفارتی موو تھی۔ اس پربھارتی انتہا پسند حلقے ان کے درپے ہو گئے۔ سدھو نے کہا کہ وہ بابا گورونانک کے 550ویں جنم دن پر وفد کے ہمراہ آنا چاہتے ہیں تو جنرل باجوہ نے کہا کہ وہ ہمارے مہمان ہونگے انھوں نے جنم دن کی تقریبات پر کرتارپور کا راستہ کھولنے کی بھی یقین دہانی کرادی۔ فوج کسی صورت مسئلہ کشمیر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتی لیکن ایٹمی طاقت ہونے کے باعث پاک فوج پرُ اعتماد ہے کہ وہ دہشت گردوں پر قابو پانے کے علاوہ وطن عزیزکی سرحدوں کو بھی محفوظ کر چکی ہے اور اب موقع پاکستان کو اقتصادی طور پر محفوظ کرنے کا ہے۔ فو ج اور سویلین حکومت کے درمیان موجودہ ’ہنی مون‘ پریڈ کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی اورفوجی قیادت کے درمیان تعلقات کو کس طرح مستقل شکل دی جاتی ہے۔ اگر عمران خان اپنے پیش رو کی طرح ہر ادارے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تومعاملات پھر خراب ہو جائیں گے۔ دوسری طرف فوج بھی اگر اپنے دائرکار میں رہ کر سویلین حکومت کو مقام دے گی تومعاملات ٹھیک ڈگر پر چلتے رہیں گے۔ فوج کی ایک اہم ضرورت سامان حرب کے لیے بجٹ کی بھی ہے لیکن اس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو اقتصادی صورتحال بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم اور اسحق ڈار وزیر خزانہ تھے تو آرمی چیف نے قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں ٹینکوں کے لیے رقم کا ذکر کیا۔ جس پر اسحق ڈار نے کورا سا جواب دے دیا کہ سیاسی عدم استحکام کی بنا پر خزانہ تو خالی ہو چکا ہے۔ اب یقینا تمام توانائیاں خزانے کو بھرنے کے لیے استعمال کرنا ہونگی۔