وزارت خزانہ کے بعد سٹیٹ بنک کی گورنری بھی آئی ایم ایف کے عہدیدار کے پاس چلی گئی ہے۔ نئے گورنر باقر رضا کئی ملکوں میں آئی ایم ایف کے لئے سنہری خدمات انجام دیں گے۔ اب یہ سعادت پاکستان کے نصیبے میں آئی ہے۔ زہے قسمت۔کچھ احباب کے لئے یہ معاملات غیر متوقع ہیں۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ خاں صاحب آئی ایم ایف کے بارے میں کہتے رہے ہیں۔ وہ اسے ناسور بھی کہہ چکے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف نے جو قرضہ (سابق حکومت کو) دیاہے ہم واپس نہیں کریں گے۔ یہ بھی فرمایا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیں گے نہ اس کی ڈکٹیشن قبول کریں گے۔ ان باتوں کی بنیاد پر احباب کو حیرت ہے کہ یہ کیا ہو گیا اور یہ کیا ہو رہا ہے۔ بڑی سادہ سی بات ہے اگر سمجھ لی جائے۔ یہ کہ یہ ’’زبان پھسل گئی ہو گی‘‘ والے معاملے کا شاخسانہ ہے۔ ایک دو نہیں‘ دو چار بار بھی نہیں‘ آٹھ دس بار بھی یہ کہا ہو گا تو زبان ہی پھسلی ہو گی۔ اس لئے اس کی اہمیت نہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے جو خاں صاحب نے آٹھ دس بار نہیں صد بار کہی‘ صد بار سے بھی زیادہ بار کہی۔ یہ کہ ایوب خان کے سنہرے دن واپس لائوں گا۔ ایوب خاں کا سنہرا دور آخر کیوں سنہرا تھا؟ اس لئے کہ پاکستان جو آزادی کے بعد سے شتر بے مہارچلا آ رہا تھا۔ ایوب خاں نے اسے آئی ایم ایف اور امریکہ کی سپرداری میں دے دیا۔ ع سپر دم بہ تو مایہ خویش را یوں‘ پاکستان کے سنہرے دن شروع ہوئے جودسمبر 1971ء کے اواخر میں ختم ہوئے۔خان صاحب نے اسی سنہری دور کی واپسی کے لئے ملک کو پھر سے آئی ایم ایف اور امریکہ کی آغوش شفقت میں دینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس میں غیر متوقع کیا ہے۔ صد بار سے زیادہ بار تو وہ بتا ہی چکے ٭٭٭٭٭ صرف ایوب خان کا نہیں‘ خان صاحب نے مشرف کا سنہر دور واپس لانے کے لئے بھی کمر ہمت کس لی ہے۔ ایوب خاں کے دور کا سب سے روشن کارنامہ معیشت کو آئی ایم ایف کی چوکیداری میں دینا تھا تو مشرف کا احسان یہ تھا کہ اس نے علم جیسی قیمتی شے کو بے قیمت لوگوں کی دستبرد سے بچانے کے لئے مہنگے نجی اداروں کا جال بچھایا اور سرکاری تعلیمی اداروں کو کمزور کیا لیکن اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ جب تک سرکاری تعلیمی اداروں کا وجود باقی ہے چاہے وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ بے قیمت ‘ بے حیثیت لوگوں کو اس قیمت متاع تک پہنچنے سے نہیں روکا جا سکتا۔چنانچہ سرکاری تعلیمی اداروں کی گرانٹس دھڑا دھڑ روکی جا رہی ہیں۔ وظائف ختم کئے جا رہے ہیں اور کل کی خبر ہے کہ پنجاب کے سو کالجز کی بھی نج کاری ہو رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی نے چھ نائب امیر بنائے تو مسلم لیگ دس قدم اور آگے بڑھ گئی۔16نائب صدور کا اعلان کر دیا وہ اب فخر سے کہہ سکتی ہے کہ نائب صدور کی تعداد کے حوالے سے وہ دنیا کی سب سے بڑی جماعت ہے۔دو نائب صدور البتہ غیر معمولی ہیں۔ ایک پرویز رشید کہ مرد حر ہونے کے باب میں غیر متنازعہ ہیں۔ دلیری اور حق گوئی کے ساتھ ساتھ صبر و ثبات میں بھی بے مثال ہیں۔ دوسرے مشاہداللہ خاں کہ جن کی تقریر غنیم کے لئے صدائے لرزہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ اسے کھڑکیوں سمیت کھڑکا کے رکھ دیتے ہیں۔ اشعار اور ضرب الامثال کی ایسی مالا پروتے ہیں کہ بس ‘ فردوسی سیاست کا خطاب دیا جائے تو سراسر ‘ سرتا سر سزاوار ہیں۔ ایک شعر بس یونہی سن لیجیے ؎ الافردوسیا‘ سحر آفرینا اے بزرگ استاد چو تو استاد معنے آفرینی کس ندارد یاد لیکن تبدیلی سرکار کو جو بات بہت ناگوارگزری ہے وہ مریم نواز کا نائب صدر ہونا ہے۔ کہنے کو تو وہ سولہ میں ایک ہیں لیکن کتنی بھاری ہیں اور کسی سے نہیں شاہ محمود وزیر خارجہ سے پوچھ لیجیے۔ دو درجن کے لگ بھگ کل نامزدگیاں ہوئی ہیں کہتے ہیں کہ سیاسی گرما گرمی کی آمد آمد ہے ۔ واللہ اعلم۔ ایک بات البتہ پکی ہے۔ نیب کا کام بڑھ گیا۔اکٹھے 24ریفرنس ‘24سوالنامے اور پھر 24ہی حتمی ریفرنس۔ واللہ کوئی آسان کام نہیں۔ ٭٭٭٭٭ شیخ رشید نے نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے پتے کی بات فرمائی۔کیا چوروں نے سارا پیسہ سڑکوں پر لگایا یعنی کیا؟ پیسہ چوری نہیں کیا سڑکوں پر لگا دیا؟ بہرحال بات ان کی درست ہے۔ پیسہ سڑکوں پر لگا دیا،بہت ظلم کی بات ہے۔ اچھا ہوتا اس پیسے سے شیشہ کیفے کھولتے خم خانہ ہائے عشق کھولتے‘ رائل پام جیسے کلب بناتے ،فارم ہائوس کھڑے کرتے اربن ایریا بھنگڑا گاہیں کھڑی کرتے‘ وغیرہ وغیرہ۔ ’’ترقیاتی‘‘ کاموں کی لمبی لسٹ تھی بعض کے تو نام ہی روح کو جھنجنا ڈالتے۔ویسے شیخ صاحب ’’چوروں‘‘ کی رعایت کر گئے انہوں نے پیسہ سڑکوں پر ہی برباد نہیں کیا۔ پل بنانے پر بھی رقم اجاڑی۔ ہسپتالوں کی سہولیات کا دائرہ وسیع اور جدید کرنے کی عیاشیاں بھی کیں۔ بجلی پیدا کرنے کے فضول پلانٹ لگاکر بھی قوم کو زیرو لوڈشیڈنگ کی عیاشی کا عادی کیا۔ سکول و کالج یونیورسٹیاں بنانے کے کارہائے ازحد زیاں بار بھی کئے۔ خاں صاحب کی آواز مکے اور مدینے ‘ خوب فرماتے ہیں کہ ان چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ ٭٭٭٭٭ مشہور کرکٹ سٹار شاہد آفریدی نے اپنے کیریئر کی یادداشتوں پر کتاب لکھی۔ ایک فقرہ برسبیل تذکرہ یہ بھی لکھ ڈالا کہ نواز شریف ڈیلیور کرنا جانتے ہیں۔تبدیلی سرکار کے میڈیا سیل نے اس پر ان کی وہ خبر لی کہ بات ان کی بچیوں تک پہنچ گئی۔ ایسے ایسے فقرے سوشل میڈیا پر ڈالے کہ جوش ملیح آبادی بھی سن پاتے تو ’’کاما‘‘ میں چلے جاتے۔غنیمت ہے ابھی ان پر مودی کا یار ہونے کا الزام نہیں لگا اور کچھ عجب نہیں کہ اس امر کی تحقیقات بھی ’’نیب‘‘ والے شروع کر دیں کہ کتاب کی فنڈنگ’’را‘‘ نے تو نہیں کی؟ ٭٭٭٭٭ وزیر سائنس رویت ہلال کو سائنٹفک بنانے پر تل گئے ہیں۔ سائنٹفک بنانے کا تو پھر ایک ہی طریقہ ہے رمضان کا مہینہ شمسی حساب سے مقرر کر دیا جائے مثلاً اعلان کر دیا جائے کہ ہر سال رمضان فروری میں آیا کرے گا ۔ہر یکم فروری کو پہلا روزہ ‘ ہر یکم مارچ کو عید۔