بنظر غائردیکھاجائے توصاف پتہ چل جاتا ہے کہ عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں آج انہی حالات سے دوچار ہیںجوسیدناحسین ؓکے کارروان حق کے ساتھ پیش آئے۔القاعدہ ، تحریک طالبان افغانستان،مصرکی اخوان المسلمون ،فلسطین کی حماس اور تحریک آزادی کشمیرسے لوگ ہمدردیاں توڑ کر کوفیوں کی طرح ایک ایک کرکے دورہوتے چلے جا رہے ہیں اور انہیں چیرپھاڑ کے لئے بے رحم دشمن کیلئے چھوڑ رہے ہیں۔مسلمانان عالم کی ان تحریکات سے عملی طورپربیزاری کاعالم دیکھ کرطاغوت اوراس کے آلہ کارشہہ پاچکے ہیں اوروہ نہایت آسانی کے ساتھ ان تحریکوں سے وابستہ گان کو ایک ایک کرکے قتل اوران تحریکوں کو تنہا(isolate)کئے جارہے ہیںلیکن اس سب کے باجوددنیا بھرکی اسلامی تحریکوں سے وابستگان، حق کے پرستاراور صداقت شعاراس امرسے کلی طورپربے پرواہ ہوکرکہ کون ان کے ساتھ چلتاکون نہیں چلتا،کون ان کاساتھ دیتاہے کون نہیں دیتا وہ شہیدہوتے ہیں یاغازی بن جاتے ہیں ۔سیدنا حسینؓ اوران کے قافلہ کی کربلا میں شہادت سے حوصلہ پاکراپنی متاع عزیز کو حاضر رکھتے ہیں۔دنیاکی تاریخ اس امرپرگواہ ہے کہ حق کا قافلہ جب کبھی نکلا ہے، باطل شعاروں نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے لیکن حق کی بالادستی کاجھنڈا اٹھاکرجولوگ اللہ کی راہ میں نکلنے والوںاورانکے موقف کی روشنی کی کرنوںکا راستہ نہ کوئی چٹان روک سکی اور نہ ہی کوئی آہنی فصیل۔وہ ہر دو صورت میں کامران اورسروخروہوئے ہیں۔ شہید ہو جاتے ہیں تب بھی کامیاب غازی بن کرمیدان جہاد سے لوٹ آتے ہیں توتب بھی کامران ۔اللہ جسے چاہتاہے اس کے سر پر یہ دستار فضیلت سجا دیتا ہے اوراس کامرتبہ اس قدر بلندکرتاہے کہ قیامت تک دنیااس پر فخرکرتی رہے گی ۔ طاغوت اوراس کے پرستاروں کا یہ دعوی رہا ہے کہ وہ حق کا راستہ زہرہلاہل کے پیالے، پھندہ لٹکتے ہوئے پھانسی کے تختے،آسمان سے باتیں کرنے والوں زہرمیں بجھے نیزے کی انی، خنجر برارکی نوک، چمکتی دمکتی شمشیروں، ثقیل زنجیروں، کڑکتی کمانوں، بھڑکتی سنانوں، مچلتی تلواروں، جھلکتی کٹاروں، توپ کے دھانوں، ظلم کے تازیانوں، جیل کی دیواروں، بموں کی سماعت شکن آوازوں اور گولیوں کی بوچھاڑوں کے ذریعے روک سکتے ہیں، لیکن تاریخ نے کل بھی او رآج بھی ان کے اس دعوے کو جھٹلایا ہے۔ مکے کا شہر، کعبے کا صحن ،شعب ابی طالب کی گھاٹیاں، طائف کی وادیاں، ابوجہل کی برچھی ، بدر کے میدان، احد کی خندقیں، خیبر کے قلعے اور کربلا کے ریگزارنے کل ظاغوت اور اس کے پرستاروں کے پندار کوجھکادیااورآج ابو غریب کاانسانیت کامذبح خانہ ،کابل اوربگرام کے تعذیب خانے ،ارض فلسطین کے کوچے، سرینگر کی گلیاں، اسرائیل کے ٹینک ،سری نگرکا، کارگو انٹروگیشن سینٹر، بھارت کے عقوبت خانے ،سنگھ پریوار کے ترشول ، مصراوربنگلہ دیش کے موت کی سزا سنانے والے خصوصی ٹربونل ،میانمارکے بودہسٹوں کے ٹوکے اورچھریاں، اس امر پر شاہد ہیں کہ سچ کے پرستاروں کو ہر دور میں ابتلا ء اور کرب و بلا کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے اور باطل کے پرستاروں نے حق کے پرچم میں اپنے گریبان کے چاک سمونے والے مجاہدوں کا راستہ روکنے کی لاکھ کوششیں کیں لیکن حق کے پرستار بدستورنعرہ زن ہیں ۔ بلاشبہ شہادت حسینؓ نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ آپ کی، آپ کے خاندان اور آپ کے اعوان و انصار کی قربانی نے لغت کو نئے الفاظ، نئے معانی، نئے مطالب اور نئے مفاہیم سے روشناس کروایا۔ لفظ حق دنیا کے ایوانوں میں ہزاروں سال سے گونج رہا ہے لیکن جب سے کربلا کے ریگزاروں میں جگر گوشہ بتول کی لاش تڑپی ہے توحق اور حسینؓ لازم و ملزوم ہو گئے ہیں ۔کربلا کے میدان میں بہتا ہوا خون حسین ؓکی بے مثال قربانی آنے والی نسلوں اور صدیوں کو یہی پیغام دے رہی ہے کہ بارگاہ حق میں سر کا نذرانہ پیش کرناگورالیکن باطل کی بیعت ہم سے ممکن نہیں۔حسینی قافلے کی لازوال قربانیوں نے جریدہ عالم پر حق و صداقت کی وہ مہر دوام ثبت کی ہے کہ باطل پرست کوشش کے باوجود تاقیامت اس کے آثار ومظاہر مدہم نہ کر سکیں گے ۔یہ شہادت حسین ؓکا اعجاز ہے کہ آج بھی مسلمان نوجوان استبداد، استحصال اور استعمارکے بتوں کو پاش پاش کرنے کیلئے نہ صرف بے چین و مضطرب ہے بلکہ ان بت کدوں کو گرانے اور ڈھانے کے لئے مصروف جہاد بھی ہے۔حسینیت کا اصل پیغام یہی ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم وجورکی بساط بچھانے کی سعی ہورہی ہو، وہ یزید ہے، جو اس کا دست و بازو بنتا ہے، وہ ابن زیاد اور شمر ہے اور وہ شہر جس کے باسی اس پر خاموش تماشائی کا کردارادا کرتے ہیں، کوفہ ہے۔ چودہ صدیاں گزر چکیں لیکن آج بھی کربل کے ریگزار کا ایک ایک ذرہ اہل عالم کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا مقدر فنا ہے، مرگ ہے، زوال ہے، نیستی ہے، اجل ہے ، نابود ہو جانا، مرجانا، مٹ جانا اور بکھر جانا ہے۔سانسیں چلتی ہیں اور رک جاتی ہیں، نبضیں پھڑکتی ہیں اور ڈوب جاتی ہیں،دل دھڑکتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں، سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہو جاتاہے، چاندنمودار ہوتا ہے اورچھپ جاتا ہے، ستارے ٹلملاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں لیکن اس کائناتِ ہست و بود اور دنیائے آب و گل میں صرف ایک چیز ایسی ہے جس کیلئے فنا ابھی خلق ہوئی اور نہ کبھی ہوگی اور وہ گراں بہا شے ہے شہیدِ حق کی شہ رگ سے ٹپکنے والا خون کا سرخ سرخ قطرہ خون کا یہ عنابی قطرہ فناناآشنااور لہو کی یہ گلابی بوند اجل نا شناس ہے۔ آیئے! ہم اپنے فکر و عمل کا جائزہ لیں، دیکھتے ہیں اس میں کتنا تضادپایاجاتاہے، ہم حسینیت سے محبت کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن یزیدوں کی مدح و ثنا سے بھی گریز نہیں کرتے،ہم بی بی زینب کے دوپٹے کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن چاردانگ عالم ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی چادرحیا،ردائے عفت وعصمت نوچی جارہی ہے مگرہم سے یہ سب برداشت بھی ہورہاہے۔کیا ہمارے لہو میں وہ حرارت پیدا ہوتی ہے جو درس کربلا کا تقاضا اولین ہے۔