وزیراعظم عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب ان کی فطری سادگی کا مظہر اور تصنع سے پاک دکھائی دیا۔ وزیراعظم کے ناقدین اور بین الاقوامی حلقے شاید ان کی زبان سے بڑے بڑے دعوے سننا چاہتے تھے مگر وزیراعظم نے پاکستان کے عام آدمی سے بات کی۔ عام آدمی کے سامنے اپنا دل اور ملک کی حقیقی حالت کھول کر رکھ دی۔ انہوں نے کسی ملک‘ کسی طاقتور دھڑے اور عالمی اسٹیبلشمنٹ سے مدد نہیں مانگی بلکہ اپنے عوام سے تعاون طلب کیا ہے۔ ان کے خطاب میں غیر روایتی پن خوشگوار معلوم ہوا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بہت سے امور پر بات کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا ذکر کیا۔ ریاست مدینہ کی مثال وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کا نظام ریاست مدینہ جیسے اصولوں پر استوار کرنے کا عندیہ دیا۔ افلاس زدہ اور محروم طبقات کو ریاست مدینہ نے یہ احساس دیا کہ وہ بے سہارا اور بے بس نہیں بلکہ ان کی دستگیری کا فریضہ اللہ کے رسولؐ کے اسوہ حسنہ پر کاربند رہنے والے سچے اور دیانتدار حکمران انجام دیں گے۔ اس ریاست کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی اپنی کپڑے کی دکان بند کردی کہ ان کا بطور حکمران اثر و رسوخ کہیں دوسرے تاجروں کے نقصان کا باعث نہ بن جائے اس ریاست کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ نے احساس ذمہ داری سے بھرپور انداز میں کہا تھا کہ ’’اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا پیاسا مر گیا تو اس کے لیے بھی میں جوابدہ ہوں۔‘‘ ۔ہمارے ہاں حکمران اس احساس ذمہ داری اور جوابدہی سے عاری رہے ہیں۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی ذاتی کاروبار نہ کرنے کا اعلان کیا اور ریاست کی انتظامیہ کے قانون اور خدا کے سامنے جوابدہ ہونے کا یقین دلایاہے۔ سادگی و سادہ رہن سہن پاکستان میں حکمرانوں کا رہن سہن عوام کی بدحالی اور ملک کی بری معاشی حالت کے باوجود ہمیشہ شاہانہ رہا ہے۔ بھاری قرضے لے کر ان کا بڑا حصہ حکمرانوں کی مراعات‘ تعیشات اور نمائشی سکیورٹی و شان و شوکت پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ عمران خان نے قوم سے سادہ زندگی گزارنے کی اپیل کرنے سے پہلے بطور وزیراعظم خود سادگی کی مثال قائم کر کے لائق تحسین کام کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف وزیراعظم ہائوس کی وسیع و عریض عمارت میں رہائش سے انکار کیا بلکہ سینکڑوں ملازمین کی جگہ دو ملازمین اور 80 بلٹ پروف گاڑیوں کی جگہ صرف دو گاڑیاں استعمال میں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ہر وزیراعظم عہدہ سنبھالتے ہی اپنی مراعات اور سہولیات میں اضافہ کرتا آیا ہے۔ پاکستان کے عوام کو پہلی بار ایسا وزیراعظم ملا ہے جس نے اپنے رہن سہن کو ریاستی وسائل پر بوجھ بنانے سے انکار کیا ہے۔ سمندر پار پاکستانی تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حمایت کرتی رہی۔ تحریک انصاف کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں ان پاکستانیوں کے ووٹ کا حق تسلیم کیا۔ یہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی اہمیت سے آگاہی ہے جو عمران خان نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دوسرے ملکوں کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی حالت زار پر توجہ دی ہے۔ انہوں نے دیار غیر میں قید پاکستانیوں کی تعداد اور ان پر بنے مقدمات کی تفصیلات جاننے کے لیے دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے۔ بلاشبہ عرب ممالک‘ ملائیشیا‘ بھارت اور یورپ کے قید خانوں میں ایسے کئی قیدی ہیں جن کے لواحقین کو پاکستان میں ان کی خیریت تک کی اطلاع نہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کا گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں انتقال ہوگیا۔ سابق حکومت معاملہ علم میں آنے کے باوجود بے حسی کامظاہرہ کرتی رہی۔ عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں سمندر پار مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کی وجہ سے پڑنے والے مالیاتی بوجھ میں کمی کی خاطر تعاون کریں۔ بدعنوانی کا خاتمہ بلاشبہ بدعنوانی نے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ حکمران طبقات نے رشوت‘ بددیانتی‘ اقربا پروری‘ کمیشن‘ کک بیکس اور سپیڈمنی کے نام سے بدعنوانی کی کئی صورتیں نکال رکھی ہیں۔ ایف بی آر کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے محکمے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ٹیکس گزاروں سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست کو ٹیکس ادا کریں وزیراعظم خود ان کے ٹیکسوں سے جمع رقم کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بجا طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ لاکھوں لوگ پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں مگر ریاست کو ٹیکس ادا کرنے پر تیار نہیں حالانکہ ریاست نے ان پیسوں سے کمزور طبقات کی بہبود کے کام کرنا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کے پی کے میں نافذ ایک ترغیبی قانون کی منظوری کا عندیہ بھی دیا۔ اس قانون کے تحت کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کو برآمد کی گئی رقم کا بیس فیصد دیا جائے گا۔ یہ قانون رائج ہو گیا اور عمران خان اس پر عملدرآمد میں کامیاب ہو گئے تو بدعنوانی کے خلاف اہم کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ مختلف ٹاسک فورسز وطن عزیز کے اداروں میں بدانتظامی اور کام چوری معمول بن چکی ہے۔ بہت سے محکمے اس لیے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے کہ وہاں ضرورت سے زائد عملہ بھرتی کرلیا گیا ہے۔ پاکستان ریلوے اور پی آئی اے کے خسارے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اداروں کے ڈھانچے میں اصلاحات کر کے ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے جو ادارہ جاتی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے سفارشات تیار کرے گی۔ پولیس نظام کو عوامی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کے لیے پی ٹی آئی نے کے پی کے میں ایک کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس تجربے کا نتیجہ مثبت انداز میں برآمد ہوا ہے۔ تھانوں میں شہریوں کی عزت نفس کا احترام کرنے‘ مظلوموں کی داد رسی‘ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے لیے سابق آئی جی ناصر خان درانی کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے۔ اسی طرح صنعتوں کی بحالی‘ تجارت میں فروغ اور برآمدات میں اضافے کے لیے ممتاز صنعتکار عبدالرزاق دائود کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ تمام ٹاسک فورسز اخراجات میں کمی‘ نظام کو فعال بنانے اور اداروں کو عوام دوست بنانے کے لیے و زیراعظم کی معاونت کریں گی۔ اللہ کرے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور مدارس کے طلبہ کو مفید شہری بنانے کی کوششیں کامیاب ہوں۔ جنوبی پنجاب صوبہ جنوبی پنجاب صوبہ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں شامل ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین نے تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل الگ صوبے کا مطالبہ کیاتھا۔ اگرچہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بھی انتظامی بنیادوں پر الگ صوبے کی حمایت کرتی رہی ہیں مگر ان کی طرف سے حکومت میں آنے کے بعد سنجیدہ رویہ سامنے نہیں آتا رہا۔ عمران خان نے قوم سے پہلے خطاب میں اس وعدے کا اعادہ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لیے ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔ اگرچہ فوری طور پر ایسا ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ سینٹ میں تحریک انصاف کو ایسی عددی اکثریت حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کے بل منظور کروا سکے تاہم مڈٹرم سینٹ انتخابات کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے سے اس علاقے کے عوام کے لیے ترقیاتی منصوبوں‘ انتظامی امور اور سیاسی نمائندگی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ کراچی میں پانی‘ ٹرانسپورٹ‘ کچرا اور امن کے مسائل طویل عرصے سے کراچی شہر پانی کی کمی‘ ٹرانسپورٹ نظام نہ ہونے‘ جگہ جگہ کچرا اور کوڑے کے ڈھیروں اور بدامنی کے باعث گونا گوں مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ شہری حکومت‘ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرسکیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر اور کاروباری مرکز مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے قومی اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ افواج پاکستان کی کوششوں سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔ کراچی ایک مدت کے بعد نئی سیاسی آزادیوں سے آشنا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کراچی شہر کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت بن کر ابھری ہے۔ اس شہر کے عوام نے عمران خان پر اعتماد کیا ہے کہ وہ انہیں مسائل سے نکالیں۔ کراچی شہر کے لیے مختلف منصوبوں کا اعلان کر کے وزیراعظم نے اس شہر کے مکینوں کی توقعات پر مثبت حکومتی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ فاٹا اور بلوچستان تحریک انصاف نے فاٹا کے خیبرپختونخواہ میں انضمام کی سب سے زیادہ وکالت کی‘ اب یہ علاقہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکا ہے۔ انضمام کے بعد اس علاقے میں تعمیروترقی کے لیے بہت سے ضروری اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی ادارے قائم ہونے کے بعد آئندہ کے اقدامات میں آسانی پیدا ہو سکے گی۔ اسی طرح بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے مذاکرات اور اس صوبے کی محرومیاں دور کرنے کے لیے وزیراعظم نے بہت سے منصوبوں کی نوید دی ہے۔ انہوں نے بجا طور پر ان علاقوں کی پسماندگی اور محرومی کو خرابیوں کی وجہ کی حیثیت سے شناخت کیا ہے۔ شجرکاری و ماحولیاتی صفائی عمران خان وہ پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے ماحولیات کو اپنی ترجیح بنایا۔ خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کا کارنامہ عالمی سطح پر داد پا چکا ہے۔ یہ درخت قومی دولت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تپش میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کئے گئے تو ملک قدرتی آفات کی زد میں آ سکتا ہے۔ سابق حکومتیں ان مسائل کا ادراک رکھتی تھیں نہ انہیں ان میں کوئی دلچسپی تھی۔ ان معاملات کو اپنے پروگرام کا حصہ بنا کر عمران خان نے نئے پاکستان کے خدوخال واضح کردیئے ہیں۔ وزیراعظم کا مخاطب عام آدمی تھا۔ عام آدمی اس بات پر ان کا مشکور ہے کہ کسی نے اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کا سوچا‘ کسی نے اس کے مسائل حل کرنے اور اسے عزت دینے کی بات کی۔