یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس وقت مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف سرائیکی وسیب کے ووٹوں سے بر سر اقتدار ہے ، تحریک انصاف نے صوبے اور وسیب کی محرومیوں کے خاتمے کے نعرے پر ووٹ لئے مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ سب کچھ بھول گئی۔ سابق وزیراعظم میر بلخ شیر خان مزاری کا پاکستان کی سیاست میں ایک نام ہے ‘ انہوںنے الیکشن سے پہلے صوبہ محاذ بنایا ، وہ صوبہ محاذ کے سینئر ترین رہنما تھے ، اب ان کے پوتے میر دوست محمد خان مزاری پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ہیں ۔ پچھلے دنوں ڈیرہ غازی خان کے صحافی احسان چنگوانی نے ان سے صوبے کا سوال کیا تو میر دوست محمد خان صاحب نے کہا کہ وہ سیاسی نعرہ تھا ، رات گئی بات گئی ۔ جب ان کے ساتھ مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں نے بھی صوبے کی بات پر اسرار کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آئین میں ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت نہیں ، جب اکثریت آئے گی تو صوبہ بن جائے گا۔ مجلس میں بیٹھے ہوئے سادہ لوگ خاموش ہو گئے مگر میر صاحب سے اتنا سوال ہے کہ فاٹا نشستوں کے اضافے کے ساتھ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے مسئلے پر آئین میں ترمیم ہو چکی ہے تو اب آپ کا یہ عذر بلا جواز ہے کہ دو تہائی اکثریت نہیں ہے ۔ گزشتہ روز ڈی جی خان ڈویژن کے ارکان اسمبلی سے ملاقات کے دوران وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے 35 فیصد فنڈز مختص کئے گئے ‘ سیکرٹریٹ کا وعدہ پورا ہوگااور لیہ میں یونیورسٹی کے قیام کا جائزہ لیں گے ۔ سوال اتنا ہے کہ میاں شہباز شریف کے دور میں بھی وسیب کے لئے 33 فیصد فنڈز مختص ہوتے رہے، مگر وہ استعمال نہ ہوئے ۔ ہم اگر موجودہ حکومت کو دیکھیں تو بلا شبہ صوبائی بجٹ میں تین ارب روپے سول سیکرٹریٹ کیلئے مختص کئے گئے ، رواں مالی سال کو ختم ہونے میں ساڑھے تین ماہ باقی ہیں ابھی تک ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا ، سوال یہ ہے کہ کیا سول سیکرٹریٹ بنانے کے لئے بھی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت یا آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے ؟ وزیراعلیٰ بننے پر وسیب کے لوگوں کی عثمان خان بزدار سے بہت سی توقعات تھیں مگر یہ توقعات آہستہ آہستہ مایوسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں ۔ وسیب کے وہ ضروری اور چھوٹے چھوٹے کام جو کہ محض ان کے آرڈر سے ہو سکتے ہیں ‘ اب تک نہیں کئے گئے۔تعلیم کا مسئلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یونیورسٹیوں میں سرائیکی شعبے قائم ہوئے مگر بے توجہی کا شکار ہیں ۔ اسی طرح کالجوں میں سرائیکی تعلیم شروع ہوئی مگر سینکڑوں آسامیاں آج تک خالی چلی آ رہی ہیں ۔ سکول کی سطح پر سرائیکی کا اجراء ہوا ، نصاب منظور ہو چکا مگر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ابھی تک کتاب شائع نہیں کی۔ پڑھانے کیلئے نہ کتاب ہے اور نہ استاد۔ سبجیکٹ سپیشلسٹ کی ساڑھے تین سو سے زائد پنجاب میں پوسٹیں آ رہی ہیں ، ضروری ہے کہ ان میں سرائیکی سبجیکٹ کو بھی شامل کیا جائے اور میٹرک کی سطح پر سرائیکی پڑھانے کے انتظامات کئے جائیں ۔وزیراعلیٰ اس جانب توجہ دیں ، اس کا م کیلئے نہ تو آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے اور نہ اسمبلیوں میں دو تہائی اکثریت کی ۔ سرائیکی ادیبوں ‘ دانشوروں اور شاعروںکا عرصے سے مطالبہ ہے کہ جس طرح لاہور میںکروڑوں روپے کی لاگت سے پنجابی کمپلیکس بنایا گیا ، اس طرح کا ادارہ سرائیکی وسیب میں بھی قائم کیا جائے اور اسے بھی اتنا فنڈ دیا جائے جتنا کہ پلاک کو دیا جا رہا ہے۔اس کی میں تھوڑی تفصیل عرض کر دوں کہ سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے حکم پر پنجاب انسٹیٹیوٹ لینگویج آرٹ اینڈ کلچر وجود میں لایا گیا ۔ اس سلسلے میں ادارے کے پہلے ڈی جی ڈاکٹر شہزاد قیصر ملتان تشریف لائے ، ریسٹ ہاؤس میں ملتان کے اہل قلم سے ملاقات کے دوران انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس طرح کا ادارہ ملتان میں بھی قائم ہوگا، جو سرائیکی زبان کے لئے کام کرے گا اور پنڈی میں بھی قائم ہوگا جو پوٹھوہاری زبان و ادب کیلئے کام کرے گا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس ادارے کے زیر اہتمام لاہور، ملتان اور پنڈی میں ایف ایم ریڈیو اور ٹی وی چینلز بھی قائم کئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پہلے اس ادارے کا نام پنجابی انسٹیٹیوٹ رکھا جا رہا تھا ، ہم نے اسے تبدیل کرایا اور اس کا نام پنجاب رکھا کہ سرائیکی اور پوٹھوہاری کو بھی اس کا حق ملے مگر پنڈی اور ملتان میں آج تک نہ دفاتر بن سکے ‘ نہ ریڈیو قائم ہوا اور نہ ہی چینل جبکہ لاہور میں یہ سب کچھ ہو چکا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس ادارے کے سالانہ کروڑوں روپے کے اخراجات میں سرائیکی وسیب کا برابر حصہ ہے مگر سرائیکی نظر انداز کیوں ہے؟ وزیر اعلیٰ سے اتنی درخواست ہے کہ آپ اور کچھ نہ کریں صرف سرائیکی کو جو حق بنتا ہے ‘ وہ دے دیںاور فوری طورپر سلاک کے نام سے سرائیکی وسیب میں ادارہ قائم کیا جائے ۔ سرائیکی وسیب میں پانی کا مسئلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ آبپاشی کے علاوہ پینے کے پانی کے مسائل ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کا جس علاقے میں گھر ہے ، وہاں انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں ۔ سرائیکی وسیب میں دریاؤں کی فروختگی کے بعد زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے اور پانی کڑوا ہو چکا ہے ، سیوریج کے مسائل کے باعث زیر زمین پانی زہر آلود بھی ہو چکا ہے جس کے باعث کالے یرقان نے سرائیکی وسیب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔پورے وسیب سے پانی پانی کی آوازیں آ رہی ہیں ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان وسیب خصوصاً بہاولنگر ، بہاول پور ، رحیم یار خان ، لودھراں اور ضلع وہاڑی کو ہوا ۔ ستلج دریا خشک ہونے سے پانی کا لیول جو تیس فٹ پر تھا ، سے کم ہو کر ستر اَسی اور بعض جگہوں پر سو فٹ سے بھی زائد نیچے چلا گیا ۔ زمینداروں کو دو دو اور تین تین مرتبہ ٹیوب ویل کے نئے بور کرانے پڑے مگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ کنویں اور نلکے بھی جواب دے گئے ، بہاولنگر کے بہت سے علاقوں میں پینے کا پانی تک ختم ہو گیا ۔لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ، صورت حال اتنی خراب ہوئی ہے کہ ضلع بہاولنگر کی منڈی صادق گنج اور کچھ دوسرے علاقوں کے بڑے بڑے زمیندار اب کراچی میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔قیام پاکستان کے بعد یہ ہوا کہ امروکا بٹھنڈہ تجارتی روٹ بند ہو گیا ، بعدازاں ایوب خان نے دریائے ستلج فروخت کر دیا ، بہاولنگر واحد ضلع ہے جہاں نہ یونیورسٹی ہے ، نہ میڈیکل کالج اور نہ ہی انڈسٹریل اسٹیٹ ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو وسیب کے ان مسائل کی طرف فوری توجہ دی ضرورت ہے ۔