سوشل میڈیا پر ایک خاتون کا جملہ بڑا مشہور ہواہے۔وزیر اعظم نے عوام کے سوالوں کے جواب دیے ،تو ایک خاتون نے فون پر وزیر اعظم کو کہا :کہ مہنگائی بہت ہوتی جا رہی ہے حکومت قابو نہیں پا رہی یا تو مہنگائی کو قابو کریں یا پھر ہمیں تھوڑا سا گھبرانے کی اجازت دیں ۔اس پر وزیر اعظم عمران خان خود بھی مسکرادیے تھے۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج اور عوام کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے، تو وہ بھی مہنگائی ہے،مہنگائی کو حکومت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جائے، تو غلط نہیں ہو گا۔ مہنگائی کونہ روکا تو حکومت کیخلاف عوام کا غصہ بڑھے گا۔مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ معیشت کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے لیکن اس بہتر ہوتی معیشت کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔2018ء میں جب عمران خان کو حکومت ملی تو اس وقت چیزوں کی قیمتیں کیا تھیں اور اب کیا ہیں، ان میں بہت فرق پیدا ہو گیا ہے،جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ڈالر 123 کا تھا اب 153 کا ہو گیا۔انڈے 96 روپے تھے اب 170 کے قریب ہیں۔عام چاول 54 رو پے تھے،اب 90 رو پے ہو گئے،مونگ مسور 175 کی تھی، اب 265 کی ہو گئی ،بناسپتی گھی 150 کا تھا،اب 300 کے قریب پہنچ چکا،آٹا 20 کلو کا تھیلا 770 کا تھا،اب 960 کا ہو گیا،بڑا گوشت 350 رو پے کلو تھا اب 500 رو پے کلو ہو گیا،چھوٹا گوشت 750 کا تھا اب 1100 کا ہو گیا،پٹرول 85 رو پے کا تھا،اب 112 کا ہو گیا۔اسی طرح دیگر اشیاء بھی مہنگی ہو چکی ہیں۔ بسوں اور ویگنوں کے کرائے بڑھ چکے،حکومت ہر روزکہتی ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ سر پلس ہو گیا،سیمنٹ کھاد کی کھپت بڑھ گئی،فیکٹریاں چل رہی ہیں ،موٹر سائیکلوں کاروں کی مانگ بڑھ گئی لیکن عام آدمی کو تو ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ۔عام آدمی پیڑ کیوں گنے اسے تو پھل کھانے سے مطلب ہے اور پھل اسے مل نہیں رہے،عام آدمی کا تو تعلق ہے کہ آٹا کس بھائو مل رہا ہے، چینی کی قیمت کیا ہے،اور بجلی کا بل کتنا آ رہا ہے وہ کیسے ادا ہو گا،عام آدمی کی معیشت ان تین چیزوں کے اندر ڈھکی ہوئی ہے اس حکومت کے اڈھائی برس میں تینوں چیزیں ہیں، مہنگی ہو ئی ہیں، خاص طور پر بجلی بہت مہنگی ہو چکی ہے۔پاکستان بننے سے لیکر اب تک کوئی بھی ایسا دورانیہ نہیں ملے گا جس میں دو اڑھائی سال میں آٹا ،چینی، گھی،بجلی اتنی زیادہ بڑھی ہو یہ صرف اسی دور میں ہو ا ہے۔ ابھی رمضان المبارک شروع بھی نہیں ہوا کہ اس سے پہلے ہی کئی اشیا کے دام بڑھ چکے ہیں اور رمضان کے آغاز پران میں پھر اضافہ ہو گا۔ادارہ شماریات کے مطابق مارچ میں مہنگائی کی شرح سال کی بلند ترین سطح پر رہی یعنی 9.05 پر پہنچی، ایک ہفتے میں 17 فیصد اضافہ ہوا حالانکہ وزیر اعظم بار بار کہ چکے کہ مہنگائی کیخلاف اقدامات کر رہے ہیں لیکن وہ اقدامات کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔اپوزیشن کے پاس ایک یہی ایشو ہے کہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے،ماہرین بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو خودسے خطرہ ہے اپوزیشن سے نہیں۔فلور ملز ایسوسی ایشنز کا کہنا ہے کہ آٹا مزید 10 رو پے مہنگا ہو گا۔مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ اسے تین طرح سے ہینڈل کیا جا سکتا ہے۔ جن میں ایک حکومت کے انتظامی فیصلوں میں بہتری کی صورت میں نکل سکتا ہے کہ جس کے ذریعے ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کو روکا جائے۔دوسرا حکومت کو بروقت فیصلہ سازی کرنا ہو گی کہ کس چیز کی ملک میں کمی پر اس کی درآمد فوری کی جائے۔ تیسرا سٹیٹ بینک کو بھی اپنی مانیٹری پالیسی زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنی چاہیے کہ جس سے ایک طرف کاروباری سرگرمیاں بڑھ سکیں تو دوسری طرف مہنگائی کو بھی قابو میں رکھا جا سکے۔ مہنگائی پر قابو پانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے،جس میں زیادہ کردار وفاقی حکومت کا ہے، جو قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔زرعی شعبے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے،جب تک اس شعبے کو ترقی نہیں دی جاتی،اجناس کی قیمتوں میں کمی لانا مشکل ثابت ہو گا۔ویسے تو مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے، دنیا کے سبھی ملکوں میں ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔بڑھتی ہو ئی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت اور بد حالی کو روکنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں کو جدو جہد اور عمل کی ضرورت ہے،حکومت لوگوں کو روز گار دینے اور دو وقت کی روٹی دینے کی ذمہ دار ہے۔ ویسے بھی عوامی حکومت یا جمہوریت اسی وقت اپنے نام کی اہل قرار دی جاسکتی ہے جب وہ عوام کو زندگی کی لازمی ضروریات کو پورا کرنے کا حق دے سکے۔مہنگائی کے مسئلہ پر جلدقابو نہ پایا گیا تو حکومت کے لئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔مہنگائی کی وجہ سے ایک تو حکومت کے ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہو پاتے، دوسرا عوام میں بے چینی بڑھتی اور جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں جیسے کہ پچھلے دنوں پی ڈی ایم نے حکومت پر مظاہروں کے ذریعے پریشر بنایا ۔ دْنیا کے متعددممالک میں مہنگائی کے آسیب نے خوفناک صورتحال سے عوام کو دوچار کر دیا ہے۔ چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاکی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔تعلیم، ادویات، کرایے، روز مرہ کی اشیا، غریب کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ نہ صحت، نہ تعلیم ، نہ رہائش آخر غریب کے لیے ہے کیا؟ مہنگائی کے باعث کئی افراد خود کشی کرنے پرمجبورہو رہے ہیں۔ ملک کے غریب افراد مجبوراً اپنے گردے فروخت کرتے ہیں جبکہ غربت اورمہنگائی کی وجہ سے کئی والدین نے اپنے بچے فروخت کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ،مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ عالمی بنک کے مطابق دنیا بھر میں اشیا خور و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کروڑوں غریب افراد کو مزید غریبی کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔ ان چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ دْنیا بھر میں اس مہنگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین رہی ہیں۔پاکستان میں خوردنی اشیا مثلاً سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیا کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی،معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے،جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ غریب اور مزدور طبقے کی تو بات ہی مت پوچھیے ان کے یہاں تو چولہا جلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ عوام جس صورتحال سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔