تیسری دنیا کے قدرتی وسائل سے بھرے غریب ممالک عالمی استعمار کا مرغوب نوالہ رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد صنعتوں کو چلانے اور معاشی تیزرفتاری کا ساتھ دینے کے لئے جدید ذرائع نقل و حمل کو رواں رکھنے کے لئے ایندھن کی ضرورت پڑی تو نظر انتخاب ان ممالک پہ پڑی جہاں تیل، گیس اور کوئلہ موجود تھا لیکن نکالا نہیں جاسکتا تھا۔ اسی طرح جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے جو ان ہی مقاصد کے لئے لڑی جاتی تھیں ان ممالک کا انتخاب کیا گیا جہاں کے غریب اور پسماندہ عوام کو علم ہی نہ تھا کہ ان کی دھرتی اپنی کوکھ میں کیسے خزانے چھپائے بیٹھی ہے۔ نوآبادیاتی دور میں سامراج کو کھلی چھٹی حاصل تھی جو ضمیر کی ادنیٰ سی خلش کے بغیر کھلے عام مقبوضہ علاقوں کے وسائل بشمول انسانی وسائل،اپنے ممالک میں کھدیڑ کر لے جاتی اور اپنی طاقت و قوت میں اضافہ کرتی رہی۔حرص و ہوس کی اس داستان میں جب نوآبادیات کا باب ختم ہوا تو استحصال کی ذمہ داری ان ہی ممالک کی ان کارپوریٹ کمپنیوں نے سنبھال لی جو پہلے افریقہ، ایشیا اور عرب ممالک میں تیل گیس اور معدنیات تلاش کرتی اور بعد ازاں انہیں ترقی اور خوشحالی کے نام پہ بے وقوف بناتی اور اپنی اور اپنی پالنہار اقوام کے خزانے بھرتی رہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر غریب ممالک میں معدنیات اوربڑے قدرتی ذخائر کی دریافت ان ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں کیوں انجام پاتی ہے۔اس سوال کے جواب کے ساتھ ہی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان ممالک میں کیوں سیاسی استحکام نہیں آنے دیا جاتا اور من پسند آمروں کو کیوں مسلط رکھا جاتا ہے جنہیں اپنے ممالک کے وسائل کی لوٹ مار کے لئے کسی جوابدہی کا خوف نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی کیوں تیسری دنیا کی اقوام جاہل و پسماندہ رکھی جاتی ہیں اور اس قابل نہیں ہو پاتیں کہ اپنے وسائل کو خود ہی دریافت کرکے استعمال کے قابل بنا سکیں۔ انہیں ہمیشہ ہی امریکی برطانوی جرمن یا اطالوی کمپنیوں کی خدمات کی ضرورت کیوں رہتی ہے؟میں نے یہ سوال ابتدا میں اس لئے رکھا ہے تاکہ اس تحریر کے اختتام تک آپ اس کا جواب تلاش کرنے کی بے چینی میں مبتلا ہوسکیں۔ ایران میں شاہ نصیر الدین قجار کی حکمرانی تھی جب 1872 ء میں اس کے ملک میں تیل کی موجودگی کا امکان ظاہر ہوا۔ ظاہرہے اس امکان کا انکشاف قجار خاندان کے کسی وزیر پیٹرولیم پہ نہیں ہوا تھا بلکہ عالمی سامراج برطانیہ نے تیل کی بو سونگھ لی تھی۔اس تیل پہ قبضے کا منصوبہ برطانیہ کی حکمران سرمایہ دار اشرافیہ سے بھی پہلے برطانوی یہودی تاجر اور بینکر پاول رائٹر نے بنالیا۔اس نے سلطنت برطانیہ کو اعتماد میں لیا اور ایران کے شاہ قجار کو ایک معاہدے پہ دستخط پہ مجبور کیا جو رائٹر کنسیشن کہلایا۔ یہ منصوبہ یا تو شاہ قجار کی ذہنی سطح سے بلند تھا اور اسے تیل کی دریافت کے نتیجے میں خوشحالی کے نئے خواب دکھائے گئے تھے یا پھر وہ ایرانی عوام کے ساتھ غداری کا مرتکب ہورہا تھا۔ اس معاہدے کی رو سے رائٹر ایران کے تیل کی تلاش ، کشید اور اس کی جس کو چاہے فروخت کا مالک و مختار بن گیا۔ یہی نہیں ایران کے تمام وسائل جن میں سڑکیں،ملیں، فیکٹریاں ٹیلی گراف یعنی مواصلات سمیت ہر شے پہ ریوینیو کے ساٹھ فیصد اشتراک کے ساتھ عرصہ پانچ سال کے لئے اس کا مکمل کنٹرول ہوگیا یعنی ایران پہ ایک یہودی کمپنی کا مکمل قبضہ۔یہ معاہدہ رائٹر کنسیشن اتنا خوفناک اور ظالمانہ تھا کہ خود برطانیہ ہچکچاہٹ کا شکار ہوگیا۔برطانوی لارڈ کرزن نے اسے دنیا کی تاریخ میں کسی بھی ملک کی طرف سے کسی غیر ملکی کو اپنے وسائل کی حوالگی کا سب سے بڑا معاہدہ قرار دیا۔ اس معاہدے کے خلاف ایرانی عوام اور علما اٹھ کھڑے ہوئے۔ اتنا شدید احتجاج ہوا کہ شاہ قجار کو یہ معاہدہ منسوخ کرتے ہی بنی لیکن یہودی بچے نے ہار نہیں مانی اور شاہ کے ساتھ ایک اور معاہدہ کرلیا جس کی رو سے اس نے ایران میں پہلا جدید بینک امپیریل بینک آف پرشیا قائم کیا۔اس سے قبل ایران جدید بینکنگ سے ناآشنا تھا۔ ایسا اس لئے ضروری تھا تاکہ بعد ازاں ایرانی تجار اور معیشت کو سود کے پنجوں میں جکڑا جاسکے۔آخر تیل ہاتھ سے جانے کیوں دیا جاتا جبکہ اسی تیل پہ روس کی نظریں بھی تھیں جس نے اسی دوران ایران کی تمباکو کی صنعت پہ قبضہ کرلیا تھا۔دو عالمی طاقتوں روس اور برطانیہ کی ایران کے قدرتی وسائل بالخصوص تیل پہ قبضے کی تجارتی جنگ جاری رہی اور برطانیہ نے ایران کی پہلی تیل کشید کرنے والی کمپنی اینگلو پرشین کمپنی کی بنیاد رکھی۔یہ کمپنی ایران میں تیل کے سب سے بڑے ذخیرے مسجد سلیمان میں تیل کی کشید کرتی رہی۔اس کمپنی کی پیدائش کا شجرہ بھی دراصل ایک برطانوی تاجر ولیم ناکس سے ملتا ہے جس سے شاہ قجار کے پوتے مظفر قجارنے رائٹر کنسیشن کی طرز پہ ایک معاہد ہ کیا جس کی رو سے وہ ایران کو کشید و فروخت شدہ تیل کے ریوینیو کا صرف ساڑھے سولہ فیصد ادا کرنے کا مجاز تھا جبکہ شاہ نے بیس لاکھ پاونڈ اپنی جیب میں ڈال لیے تھے۔ تیل تو جب نکلنا تھا تب نکلنا تھا لیکن صحراؤں میں سات سال بے نیل و مرام بھٹکنے کے بعد ولیم ناکس نے مایوسی کے عالم میں اپنی کمپنی کے حقوق برما آئل کو فروخت کردئے جس نے بعد میں اینگلو پرشین کمپنی کا روپ دھار لیا جو مکمل طور پہ برطانیہ کے کنٹرول میں تھی۔ اینگلو پرشین کمپنی نے آبادان آئل ریفائنری قائم کی کامل پچاس سال دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری رہی جو ایران کی زمین سے تیل کا خزانہ نکالتی اور برطانوی معیشت میں ڈالتی رہی۔ دوسری جنگ عظیم میں چرچل ایرانی تیل کے بڑے خریداروں میں سے ایک تھا اگر اسے خریداری کہا جائے۔ اسے اپنے بحری جہاز کوئلے سے تیل پہ منتقل کرنے تھے۔عراق میں کرکوک میں بھی ایک برطانوی آرمینائی تاجر تیل دریافت کرچکا تھا اور سلطنت عثمانیہ قیمتی تیل برطانیہ کو سستے داموں فروخت کررہا تھا۔ اینگلو پرشین کمپنی نے اسے بھی خرید لیا یوں ایران اور کرکوک کا تیل برطانیہ کے بحری جہازوں کا ایندھن بنتا رہا۔ ادھر ایرانی مزدور کی حالت دگرگوں ہوتی رہی اور نصف صدی تک اس کا خون نچوڑا جاتا رہا جبکہ ایرانی معیشت ناقابل اصلاح ہوتی گئی۔عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو یہ ایرانی علما ہی تھے جو حکومت کے خلاف احتجاج میں عوام کے ساتھ کھڑے ہوئے۔بعد از خرابی بسیار حکومت نے اینگلو پرشین کمپنی سے درخواست کی کہ تیل کے ریوینیو میں اس کا حصہ سولہ سے پچیس فیصد کردیا جائے جبکہ اصولا اسے پچاس فیصد ہونا چاہئے تھا۔ کمپنی نے درخواست قبول کرلی اور صرف سالانہ پچھتر ہزار ڈالر کے عوض تیل کی فیلڈ کا وہ رقبہ خرید لیا جہاں سے تیل زیادہ اور اعلی کوالٹی کا نکلتا تھا۔اس کشید کے آڈٹ کا حق حکومت کو نہیں تھا۔چند ٹکوں کے عوض ایران کا تیل ایک غیر ملکی کمپنی کے ہاتھ مزید ساٹھ سال کے لئے گروی رکھ دیا گیا۔(جاری ہے)