تحریک انصاف کے رہنما اور متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ سوئس بینکوں میں موجود200ارب ڈالر کی تحقیقات کی جائیں گی۔ ایل این جی سمیت تمام معاہدے عوام کے سامنے لائیں گے۔آئی ایم ایف کی طرف جا رہے ہیں آئندہ چھ ماہ تکلیف دہ ہوں گے البتہ تبدیلی نظر آئے گی۔ اقتدار سنبھال کر عوامی منشا ء پر پورا اترنے اور اپوزیشن میں بیٹھ کر بڑے بڑے دعوے کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پی ٹی آئی نے 2013ء سے لے کر 2018ء تک مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن کا بھر پور کردار ادا کیا۔ جبکہ صوبہ خیبر پی کے میں حقیقی تبدیلی لا کر ستر سال کے مسائل پانچ سال میں ٹھیک کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تحریک انصاف نے حکمران جماعت(ن) لیگ کے منصوبوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور ملک میں خوشحالی لانے ‘ قوم کی قسمت تبدیل کرنے اور اداروں کو درست کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیے تھے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی عوام دشمن پالیسیوں کے ستائے عوام نے تحریک انصاف کے انتخابی منشور اور اس کے مستقبل کے وژن کو پذیرائی بخشی اور عام انتخابات میں اسے کامیاب کروایا‘ اب تحریک انصاف کو بھی اقتدار میں آ کر غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا‘ پاکستان کی گرتی معیشت، امن و امان کی مخدوش صورتحال‘ غربت‘ مہنگائی اور کرپشن کے باعث یہاں کی حکومت پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے‘ اس لیے پی ٹی آئی کو اقتدار سنبھالتے ہی اپنے منشور کے مطابق کام شروع کرنا ہو گا، تحریک انصاف اگر پہلے 100دنوں میں وعدے کے مطابق کام کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عوام میں اس کی ساکھ مزید مضبوط ہو گی اور ضمنی الیکشن میں عوام اس کی پرفارمنس کو دیکھ کر انہیں کامیاب کرائیں گے۔ خدا نخواستہ اگر ابتدائی دنوں میں پی ٹی آئی اپنے منشور کے مطابق کام نہ کر سکی۔ قوم سے کیے وعدوں کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا تو پی ٹی آئی پہلے سو دنوں میں اس مقام تک آجائے گی جہاں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو آتے ہوئے ایک عرصہ لگا ہے اور عوام بھی اسے کبھی معاف نہیں کرینگے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ سوئس بنکوں میں ہمارے 200ارب ڈالر موجود ہیں لیکن ن لیگی حکومت نے وہ رقم واپس لانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ میڈیا کی حد تک خبریں آتی رہی کہ سوئس حکومت کے ساتھ رقم کی واپسی کے لیے معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اب مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن یہ ساری باتیں صرف میڈیا کی حد تک تھیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسد عمر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ سوئس بنکوں میں پڑا ملکی پیسہ واپس لائیں گے ۔اگر پی ٹی آئی حقیقت میں یہ رقم واپس لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہمیں آئی ایم ایف سے بھی چھٹکارامل سکتا ہے ۔ اسحق ڈار نے 200ارب ڈالر کی بات کی تھی شاید اس نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو لیکن اگر اس کا نصف بھی واپس آ جائے تو ملکی معیشت بہتر ہو سکتی ہے۔ ن لیگی حکومت نے قطر کے ساتھ ایل این جی درآمد کرنے کا کئی ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا تھا۔ اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود ن لیگ اس معاہدے کو منظر عام پر نہ لائی۔ عمران خان نے بھی اس پر احتجاج کیا تھاجبکہ شیخ رشید نے عدالت جانے کا اعلا ن کیا تھا لیکن اس کے باوجود ن لیگ ڈٹی رہی اور معاہدے بارے کچھ نہیں بتایا۔ اب پی ٹی آئی حکومت نے اس معاہدے کو عوام کے سامنے لانے کا اعلان کیا ہے ۔ جو خوش آئند ہے دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے بارے عوام کو علم ہونا چاہیے اگر کسی نے اس معاہدے میں کمشن کھایا ہے تو اس کا محاسبہ کیا جائے اور مارکیٹ کے تناسب سے اگر ریٹ زیادہ ہے تو قطر حکومت کے ساتھ ازسرنو مذاکرات کر کے ریٹ مارکیٹ کے حساب سے مقرر کیا جائے۔ اسی طرح صدر نیشنل بنک کو منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے باعث ہٹانے کا فیصلہ بھی مستحسن ہے، کوشش کی جائے کہ بیورو کریسی میں جو بھی افسران کسی کرپشن میں ملوث رہے ہیں انہیں اہم عہدہ نہ دیا جائے اور جن افراد کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں ان کے فیصلے آنے تک انھیں کوئی ذمہ داری دینے سے گریز کیا جائے۔ تحریک انصاف نے وزراء کے سرکاری پیسوں سے بیرون ممالک علاج پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی کے بیرون ممالک سیاحتی دوروں اور علاج معالجے پر بھی مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ عمران خان نے بطور وزیر اعظم‘ وزیر اعظم ہائوس میں رہائش نہ اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ چاروں گورنر ہائوسز بھی یونیورسٹیوں میں بدلنے کا اعلان کیا تھا۔ اگر 130ایکڑ اراضی پر محیط وزیر اعظم ہائوس کی بات کریں تو اس کے سالانہ اخراجات ایک ارب 85کروڑ ہیں ۔اگر پانچ سال کی یہ رقم اسلام آباد کے شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو تو اس سے تبدیلی کا وعدہ پورا ہوتا نظر آئے گا۔ اس طرح چاروں گورنر ہائوسز سے ملنے والی آمدنی بھی اگر ہر صوبے کے عوام پر خرچ ہو‘ وزیر اعظم‘ سپیکر ز‘ڈپٹی سپیکرز‘گورنرز، وزراء اعلیٰ وفاقی اور صوبائی وزراء اگر سادگی اپنائیں تو حکومت ایک خطیر رقم بچانے میں کامیاب ہو جائے گی اسی طرح عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والا پیسہ بھی عوام کی فلاح پر خرچ کر کے عمران خان اپنے وعدے میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے کئی اہم ادارے ایئر پورٹس ‘شاہراہیں اور تاریخی عمارتیں گروی رکھ کر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے لے رکھے تھے ‘یہاں تک کہ نئے قرضوں کی بیشتر رقم سابقہ قرضوں کی قسطیں اور سود ادا کرنے میں واپس چلی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جو معمولی رقم بچتی تھی وہ حکمران سیاستدان اور نوکر شاہی کے اہلکار آپس میں بانٹ کر ہڑپ کر جاتے تھے۔ پی ٹی آئی کو اس کا سدباب کرنا ہو گا کوئی کتنا بااثر کیوں نہ ہو قومی خزانے کے ساتھ کھلواڑ نہ کر سکے اس کے لیے تحریک انصاف کو تمام اداروں میں معیار اور میرٹ پر تعیناتیاں کرنا ہو گی ‘تمام ملازمین سیاستدانوں کی بجائے ریاست کے وفادار ہونے چاہئیں تب جا کر اداروں کی ساکھ بحال ہو گی۔ تحریک انصاف کا برانڈ بھی قانون کی حکمرانی اور کرپشن کا خاتمہ ہے۔ اس سلسلے میں بااثر اور عام آدمی کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے، اگر تحریک انصاف اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے تھانہ اور کچہری کی سیاست کا خاتمہ کر کے عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مہیا کرتی ہے تو یہ ملک میں اس تبدیلی کی ابتدا ہو گی جسے دیکھنے کے لیے عوام ایک عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔