’’ہنوز دِلّی دور است‘‘کے ضمن میں سلسلۂ کلام میں وقفہ ذرا طویل ہوا ،تو احباب نے متوجہ کیا ،جس سے ان اولوالعزم اور جلیل القدر ہستیوں کے ساتھ عامۃ الناس کی وابستگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دنیا کے فاتحین کی فتح مندیاں اپنی جگہ ، مگر قلب و نظر کی تسخیر اور دلوں کی کایا پلٹ دینے کا جو داعیہ اور ملکہ،اللہ نے اپنے ان بندگانِ خاص کو عطا فرمایا ، اس کی نظیر کسی اور طبقے میں میسر آنا مشکل ہے، بالخصوص اوائل دور کے صوفیا نے برصغیر پاک وہند میں ’’خانقاہیت‘‘کو جس مرکزی نظام کے تحت منظم ، مرتّب و متشکل کیا ، اسکے ثمرات ،رہتی دنیا تک اس خطّے میں فراواں رہیں گے ۔ اس سلسلے کی انتہائی معتبر ہستی ،سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدینؒ فرماتے ہیں کہ:جس روز شیخ شیوخ العالَم شیخِ کبیر بابا فرید الدین گنج شکر ؒنے مجھے خلافت سے سرفراز فرمایا ، تو آپ نے میری طرف رخ کر کے فرمایا ’’خدائے تعالیٰ تجھ کو نیک بخت کرے ، تجھ کو نفع دینے والے علم اور عملِ مقبول سے سرفراز کرے ۔ پھر فرمایا کہ تم ایسے درخت ہو گے جس کے سائے میں خدا کی مخلوق آرام پائے گی ۔پھر فرمایا کہ تمہیں مجاہدے کرنے چاہئیںتاکہ تم میں استعداد پیدا ہو۔ ‘‘ حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں جب میں دہلی واپس ہو رہا تھا اور ہانسی پہنچا تو آپ کے حسبِ ارشاد شیخ جمال الدین ہانسوی ؒ کو خلافت نامہ دکھایا جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور نہایت لطف و شفقت سے پیش آئے اور یہ شعر پڑھا : خدائے جہاں را ہزاراں سپاس کہ گوہر سپردا بگوہر شناس پروفیسر ڈاکٹر ظہور الحسن شارب کی یہ روایت بھی موزوں اور متعلق ہے ۔جس کے مطابق : بوقتِ خلافت حضرت محبوبِ الہٰی ؒسے مخاطب ہو کر حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے فرمایا کہ :’’ اے نظام الدین ! میں چاہتا تھا کہ ’’ولایتِ ہندوستان ‘‘ کسی اور کو دوں، مگر تم راستے میں تھے کہ مجھ کو غیب سے ندا پہنچی کہ ابھی ٹھہرے رہو ،نظام بدایونی آتے ہیں اور وہی اس ولایت کے لائق ہیں، انہیں کو دینا چاہیے ‘‘۔ حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی ؒ کی بدولت فیضانِ حکمت و طریقت ہندوستان کے ایک ایک گوشے میں پہنچ گیا ۔آپ کی خانقاہِ معلی فی الحقیقت ظلمت و گناہ کی تاریک رات میں نویدِسحر اور غم و دکھوں سے اُٹی ہوئی انسانیت کے لئے پیغامِ شفاتھی ۔ممتازمؤرخ ضیاء الدین برنی کے مطابق:’’خلقت کااس قدر ہجوم اور آپ کی مقبولیت کا یہ عالم کہ خاص و عام ، مفلس و امیر ، عالم وجاہل ، شریف و رذیل ،شہری اور دیہاتی ،آزاد اور غلام سب ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور ان کے حلقۂ مریدین میں شامل ہونا اپنے لئے سعادت کا باعث سمجھتے تھے ۔‘‘برنی نے بڑی تفصیل سے اس شاہراہ کا بھی حال لکھا ہے جودہلی شہر سے غیاث پور جاتی تھی اور جہاں خانقاہِ نظامیہ میںآنے جانے والوں کی ایک بھیڑ لگی رہتی تھی۔ہزاروں فرسنگ سے عقیدت مند ان کی خدمت میں آتے تھے اور ان کی آستاں بوسی کو دین و دنیاکی دولت سمجھتے تھے ۔ ان کی نظرمیں ایسی تاثیر تھی بقول شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ : جوں ہی آدمی غیاث پور میں داخل ہوتا ،اس کی حالت دگرگوں ہو جاتی تھی ۔شیخ محمداکرام آبِ کوثر میں لکھتے ہیں کہ :’’معاصرانہ تاریخوں سے بخوبی نظر آتا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ ؒ کی خانقاہ دربارِشاھی کے مقابلے میں دوسری بارگاہ تھی جہاں عوام و امراء کسی خوفِ حکومت سے نہیں ‘ بلکہ ارادت وعقیدت کے جذبات سے متاثر ہو کر سر جھکاتے تھے ۔ حضرت سلطان المشائخ کااتنا اثر تھا کہ سلطان علاؤ الدین خلجی جیسے جابر بادشاہ ان سے خم کھاتے تھے اور ان کی خواہشات کا پاس کرتے تھے ۔بعض بادشاہ اور شہزادے تو ان کے عقیدت مند مرید تھے۔ ‘‘ایسی والا شان، مذہبی اور دینی پس منظر کی حامل ‘ پر شکوہ روحانی خانقاہ کسی بھی دنیاوی حکمران کیلئے باعث ِتشویش ہو سکتی ہے کہ یہ حکمرانوںکی قدیم روایت اور پرانی نفسیات ہے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی درگاہ عملاً ایک روحانی سطوت کا عملی اظہار تھی ‘ جس میں ایک مضبوط مرکز ، مادی وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود وسیع دائرہ اثر اور دیار و امصار کے دینی و روحانی معاملات سے ربط کا بھی ایک مؤثر نظام موجود تھا ۔ اقتدار کی طاقت اور قوت کا اثر تو صرف انسانی جسم پر غلبہ و تسلط کاحامل ہوتا ہے جبکہ دین و فقر کی حکمرانی انسان کے ان بنیادی جذبات پر ہے جہاں اس کی فکر ونظر کے زاویے ڈھلتے اور شخصیت ڈھلتی ہے ۔ اسی سبب دہلی کے مطلق العنان حکمرانوں کا اس روحانی نظام کو اپنے لئے خطرہ سمجھنا ایک سیاسی سی بات تھی۔ چشتیہ بزرگ ، سلاطین و امراء کے ہاں جانے اور ان سے ربط و تعلق کے سلسلے میں ہمیشہ احتیاط و اجتناب کے قائل رہے ہیں ۔ حضرت بابا فرید الدین ؒ نے حکمرانوں سے دور رہنے کی حکمتِ عملی اختیار کی اور ریاستی معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھا نیز اپنے مریدوں کو بھی اسی کی تلقین کی ہے ۔حضرت نظام الدین ؒ کا معاملہ بھی ایسے ہی رہا ۔ تاہم بعد کے دور میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے چشتیہ مشائخ اورحکمرانوں کے درمیان نزع بلکہ تضاد کو زیادہ واضح کر دیا ۔جس کا سبب ان مشائخ کادینی رسوخ اور عوامی پذیرائی اور محبت و عقیدت تھی ۔ سلطان علاؤ الدین خلجی ( 1296ء تا 1316ء )کو اس کے کسی مصاحب نے یہ بات باور کرائی کہ :’سلطان المشائخ مقتدائے عالم ہو رہے ہیں اور کوئی متنفس ایسا نہیں جو ان کے در کی خاک کو اپنے سر کا تاج نہ بناتا ہو ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے سبب سے سلطنت میں خلل آجائے ‘‘۔یہ علاؤ الدین کے عہدِ حکومت کاابتدائی زمانہ تھا ۔حاسدوں کی اس بات سے اس کے دل میں یہ شبہ ضرور پیدا ہو گیا لیکن شیخ ؒکے متعلق اس کی جو ذاتی رائے تھی اس کے پیش نظر کوئی نامناسب قدم اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی ۔اس نے شیخ ؒکے خیالات کا اندازہ لگانے کے لئے ایک خط خضر خان کے ذریعے ان کی خدمت میں بھیجا ۔ اس خط میں لکھا تھا کہ چونکہ آپ مخدومِ عالم ہیں اس لئے مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کارِ مملکت میں آپ سے مشورہ لوں اور آپ جس چیز میں سلطنت کی بھلائی ، بہبودی اور اس بندہ کی خلاصی اور رہائی دیکھیں اس کا حکم فرمائیں ۔سلطان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح شیخ کی سیاسی خواہشات کا پورا اندازہ ہو جائے گا۔ خضر خان جب یہ خط لے کر شیخ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے بے پڑھے واپس کر دیا اور فرمایا ۔’’درویشوں کو بادشاہی امور سے کیا واسطہ ؟ میں درویش ہوں ،شہر سے علیحدہ گوشہ میں زندگی بسر کرتا ہوں ۔ بادشاہ اور مسلمانوں کی دعا گوئی میں مشغول ہوں ۔ اگر بادشاہ اس بارے میں پھر مجھ سے کچھ کہے گا تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا ۔’’اللہ کی زمین وسیع ہے ‘‘۔علاؤ الدین یہ جواب سن کر بے حد خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں تو پہلے ہی سے جانتاتھا کہ اس طرح کی باتوں کا حضرت سلطان المشائخ ؒ سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہو سکتا ۔ البتہ دشمنوں نے یہ چاہا تھا کہ مجھے اللہ کے ایسے خاص بندوں سے لڑا دیں اور اس طرح ملک تباہ ہو جائے ۔ پھر علاؤ الدین نے شیخ ؒکے پاس معذرت کے لئے آدمی بھیجا اور کہا:’’میں خدمتِ مخدوم میں جرأتِ بے جا کا مرتکب ہوا ہوں ۔ آنجناب میری اس جرأت کو معاف کر دیں اور اجازت دیں کہ میں حاضر ہو کر سعادتِ قدم بوسی حاصل کروں ‘‘۔اس درخواست کے جواب میں شیخ نے یہ کہلا بھیجا کہ ’’ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ۔ میںغائبانہ دعا ء کرتا ہوں اور غَیبت میں دعا کرنے کا اثر کہیں زیادہ ہواکرتا ہے ‘‘۔ سلطان اس کے بعد بھی ملاقات پر مصر ہواتو شیخ ؒ نے کہلا بھیجا :’’میرے گھر کے دودروازے ہیں۔ اگر بادشاہ ایک سے اندر داخل ہو گا تو میں دوسرے سے باہر چلا جاؤںگا ‘‘۔(جاری ہے)