وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے اہم اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت نے سیالکوٹ کے سانحے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہجوم کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اجلاس میں شریک وزرا اور آرمی چیف نے کہا ہے کہ اس نوع کے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ سیالکوٹ میں شرپسند عناصر کے اشتعال دلانے پر ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کا قتل پاکستانی سماج کے لیے نئے خطرات کا اشارہ ہے۔ ہجوم کی سوچ اور مقاصد اکثر اوقات وقتی اور غیر منظم ہوتے ہیں اس لیے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے معمول کے اقدامات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں ہجومی تشدد کے زیادہ واقعات کراچی شہر میں اس وقت رونما ہونے لگے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈکوئوں اور سٹریٹ کرائم میں ملوث عناصر کوگرفتار کرنے میں ناکام ہو گئے ۔ شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جرائم پیشہ افراد کو پکڑ کر موقع پر مارنا شروع کردیا۔ ہجوم کے ہاتھوں مرنے والے زیادہ افراد وہ ہیں جنہیں عقیدے کی بنیاد پر یا توہین مذہب کے الزام میں قتل کیا گیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی شخص نے ذاتی رنجش کی بنا پر دوسرے پر توہین کا الزام لگا کر خود ہی قتل کردیا۔ ایسا ایک واقعہ کچھ عرصہ قبل سرگودھا میں پیش آیا جہاں ایک سکیورٹی گارڈ نے اپنے بینک منیجر کو اس لیے قتل کردیا کہ وہ اسے اپنا کام درست طور پر کرنے کی تاکید کرتا تھا۔ بینک گارڈ نے اس رنجش پر منیجر کوقتل کر کے اس پر توہین کا الزام لگا دیا۔ گارڈ نے باہر نکل کر مذہبی نعرے لگانا شروع کردیئے۔ آناً فاناً مجمع لگ گیا،قاتل کے ماتھے کو چوما جارہا تھا۔ یہ تو تحقیقات میں کھلا کہ مقتول نمازی اور دیندار شخص تھا جسے بے گناہ قتل کیا گیا۔ برسوں پہلے گوجرانوالہ میں ایک حافظ قرآن نوجوان کی بیوی نے جھگڑے کے بعد خاوند پر قرآن جلانے کا الزام لگایا۔ لوگ جمع ہوئے اور حافظ قرآن کو قتل کردیا۔ہمارے ہاں رسول پاکؐ سے عشق کا جذبہ ہمیشہ سے موجزن ہے۔ اولیا کرام نے لاکھوں غیر مسلموں کو مسلمان کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سنت مطہرہ کے مطابق بنانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں‘ حضرت محمدؐ اللہ کے آخری رسول ہیں‘ روز قیامت اور ملائیکہ پر ایمان ضروری ہے۔ جو شخص ان بنیادی عقائد پر ایمان رکھتا ہے‘ دل سے انہیں تسلیم کرتا اور زبان سے اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہے اور اس کی جان‘ مال اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہیں۔ صرف مسلمانوں کے خون کو حرام نہیں قرار دیا گیا بلکہ ریاست کے فیصلے کا انتظار کئے بنا اور ریاستی انتظام کے بغیر کسی غیر مسلم کو ہجوم بنا کر اس پر ظلم کرنا بھی منع کیا گیا۔ وطن عزیز میں ہمیشہ سے مذہبی بنیاد پر اشتعال پھیلا کر مقاصد حاصل کرنا بہت آسان رہا ہے۔ اسے سماجی شعور میں کمی‘ تربیت کا نہ ہونا کہا جا سکتا ہے لیکن اس میں کیا شک ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور بعض اوقات اہم ریاستی ادارے بھی ان معاملات پر خاطر خواہ حکمت عملی ترتیب دینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ دہشت گردی کے خلاف ہمیں طویل جنگ اس لیے لڑنا پڑی کہ جن کے خلاف قوم لڑ رہی تھی وہ بھی مسلمان تھے۔ سکیورٹی اداروں کو کئی بار اپنے جوانوں کی خصوصی تربیت کرنا پڑی کہ وہ کسی تصادم کی صورت میں ابہام کا شکار نہ رہیں۔ سماج میں مذہبی رواداری اور امن قائم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ اس پلان کی تیاری میں تمام ادارے‘ حکومت اور اپوزیشن سے رائے لی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان پر جہاں 25 فیصد بھی عمل ہوگیا ان علاقوں میں بدامنی باقی نہ رہی۔ کراچی جیسا شہر کس قدر پرسکون ہوگیا۔ شمالی وزیرستان‘ جنوبی وزیرستان اور دیگر ایجنسیوں میں دہشت گرد ختم ہو گئے۔ پاکستان کے جن شہروں میں مذہبی‘ لسانی اور نسلی بنیادوں پر تشدد کو فروغ دینے والے عناصر موجود تھے وہاں امن قائم کیا گیا۔ جن لوگوں نے ریاست کے آئین اور بالادستی کو تسلیم نہ کیا ان کے خلاف کارروائی پر ساری قوم متفق نظر آئی۔سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کے قتل کے پس پردہ حقائق سامنے آ چکے ہیں۔ پریانتھا کمارا کی سختی سے ناراض کارکنوں نے اسے قتل کرنے کی پوری کہانی اس طرح بیان کی کہ لوگ اسے تحفظ ناموس مذہب کا واقعہ سمجھیں۔ شاید مقتول غیر مسلم اور غیر ملکی نہ ہوتا تو کوئی حقائق سامنے لانے کا تردد بھی نہ کرتا کہ ہجوم نے معاشرے کی تمام حسیات کو اپنے خوف سے دبا رکھا ہے۔ ہجوم پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرتے ہیں‘ ہجوم تاجروں کی املاک نذر آتش کرتے ہیں‘ ہجوم جب چاہتے ہیں اپنی عدالت لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔عدالتوں پر حملے ہوتے ہین ، ہسپتال پر یلغار ہوتی ہے۔ سیالکوٹ کے واقعہ کی مذہبی طبقات اور علما کرام نے دو ٹوک انداز میں مذمت نہیں کی۔ تاریخ نے علماء کرام کو ایک موقع عطا کیا ہے کہ وہ درست اور غلط کی تمیز کر کے معاشرے میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرسکیں۔سانحہ سیالکوٹ کے بعد حکومت اور اپوزیشن ارکان کا جو موقف سامنے آیا وہ امید افزا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ عسکری قیادت بھی ہجومی تشدد کے پس پردہ متحرک سوچ کے مضمرات کا اعتراف کر رہی ہے۔ ہجومی تشدد اداروں کی استعداد کم ہونے اور ریاست کی ساکھ کمزور ہونے پر بطور متبادل قوت کے جنم لیتا ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ تمام گروہوں‘ جماعتوں اور اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ماورا آئین اور ماورائے عدالت معاملات سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے ان عناصر کی بیخ کنی کے لیے متحد ہوں جو ریاست پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہجومی تشدد پر فقط تشویش کا اظہار کافی نہیں۔