ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہمیں ہونا تھا رسوا ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی کسی نے درست کہا تھا کہ خوش رہنے کے لئے بے وقوف ہونا ضروری ہے۔ وہی پنجابی میں کہ عقل نہیں تے موجاں ہی موجاں۔بات تو ساری احساس ذمہ داری ہے کہ کم از کم کوئی اشک شوئی ہی کر لے۔ کوئی دلجوئی اور کوئی حال چال ہی پوچھ لے۔ مگر وہی گھسی پھٹی بات مشکل میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے کہ قبلہ آپ کراچی پہنچیں پوری ٹیم کے ساتھ جو وزیران اور مشیران ایک بھاری بوجھ بن کر قوم کے کاندھوں پر سوار ہیں کون وہاں پہنچا ہے؟ جہاں لوگ ڈوب رہے‘ مکان ڈھے رہے ہیں اور پانی سر سے اونچھا ہوتا جا رہا ہے۔کوئی روائتی ہوائی جائزہ ہی لے لیں کہ جسے طائرانہ نظر کہا جاتا ہے: اے موج بلا ان کو بھی ذرا دوچار تھپیڑے ہلکے سے کچھ لوگ ابھی تک ساحل پر طوفان کا نظارہ کرتے ہیں لوگوں کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ پچاس پچاس گاڑیوں کے پروٹوکول میں چلنے والے سب کہاں ہیں۔ سارے ہی دودھ پینے والے مجنوں ہیں۔ آپ شہباز شریف کو تو شوباز کہہ کر خوش ہو جاتے ہیں اور اس کے لانگ شوز ار ہیٹ کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ جا کر پانیوں میں کھڑا کر،ڈرامہ کرتے تھے۔ چلیے آپ اتنا تو کریں کیسے کیے کمال کردار ہمارے ماضی میں تھے حتیٰ کہ فوجی حکمرانوں میں بھی غالباً میں مشرقی پاکستان‘ حالیہ بنگلہ دیش کے ضمن میں جنرل اعظم کا پڑھ رہا تھا کہ وہاں سیلاب آیا تو انہوں نے لونگ شوز پہنے اور ٹیم کے ساتھ یہ کہتے ہوئے نکلے کہ جب تک اس آفت کا مقابلہ نہیں کر لیتے وہ چین سے بستر پر نہیں سوئیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اس شخص کو وہاں ہیرو کے طور پر لیا گیا۔ قوم بھی سب کچھ سمجھتی ہے مگر بے بس ہے۔ایک اٹھتا ہے تو کہتا ہے کہ ہم حکومت میں جیبیں بھرنے نہیں خزانہ بھرنے آئے ہیں جناب ہم تو مانتے ہیں کہ آپ نے جیبیں بھری نہیں خالی کی ہیں اور عوام بے چارے شور مچا رہے ہیں ،چلیے آپ عوام کی جیبیں خالی کر کے خزانہ ہی بھر لیتے تو ہمیں چین آ جاتا۔ پتہ نہیں اس میں کتنے سراخ ہیں۔ یہ خزانہ بھی کسی شاعر کے دل جیسا ہے: دل بھی کیسی شے ہے دیکھو پھر خالی کا خالی گرچہ اس میں ڈالے ہم نے آنکھیں بھر بھر خواب آپ ٹاک شو سن لیں اچھی خاصی انٹرنیمنٹ ہے۔ کوئی سنجیدگی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ ابھی کل ہی میں رانا ثناء اللہ کی باتیں سن رہا تھا کہ ان باتیں کرنا بنتا بھی ہے کہ حکومت نے بھونڈے انداز میں ان پر منشیات ڈال کر اور پھر ثابت نہ کر کے اپنا توا لگوایا اور انہیں ہیرو بنایا ہے ایک الگ موضوع ہے۔ رانا صاحب فرما رہے تھے کہ نواز شریف خان صاحب کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ یہ ان کو واپس لانے کی بات کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے ۔منتیںکر کے انہیں بھیجا ہے اور اب وہاں نواز شریف صرف اپنا علاج ہی نہیں کرا رہے بلکہ وہاں سے ان کا علاج بھی کر رہے ہیں انہوں نے مزید مزیدار بات کی کہ ابھی تو یہ ان کے ہنسنے اور کافی پینے پر پریشان ہیں۔ ابھی تو انہیں دیوار میں ٹکریں مارنا پڑیں گی۔ دوسرے لفظوں میں سر پیٹنا پڑے گا جب یہ نواز شریف کو ویڈیو میں ایکسر سائز کرتے ہوئے دیکھیں گے۔کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ پہلے یہ کہہ رہے تھے نواز شریف کو کسی نے بھجوا دیا اور اب جب ادھر سے کرارا جواب آیا اور کچھ شواہد ان کے حوالے سے ملے تو کہنا شروع کر دیا ہے کہ نواز شریف کوبھیج کر انہوں نے غلطی کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ انہیں واپس لا کر اس سے بھی بڑی غلطی کریں گے ویسے واپس لانا ان کے بس کی بات بھی نہیں۔ شیخ رشید بالکل صاف صاف یہ بتا چکے ہیں اور شیخ رشید کی بات اپنی نہیں ہوتی‘ مصدقہ اطلاع ہوتی ہے: پہلے تو آگ لگاتے ہیں تماشے کے لئے بھی اور بھر حال بھی وہ خندہ بلب پوچھتے ہیں اب انہوں نے ایک اور سلسلہ شروع کیا ہے کہ پاور نچلی سطح پر پہنچانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور پھر کابینہ میں تبدیلی کی۔ روز ایک نیا ایشو نظر کسی ایک جگہ ٹھہرتی ہی نہیں۔ باتوں باتوں میں وقت گزرتا جائے گا۔ دو سال تو گزر چکے کسی کو نچلی سطح پر درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔ اب جب اقتدار ڈول رہا ہے تو کبھی نوجوان یاد آتے ہیں اور کبھی بلدیاتی ممبرز کی طرف دھیان جاتا ہے کوئی وژن نہیں ، یکسوئی اور نہ کوئی مقصد۔ ٹائیگر فورس کا سن کر ہی ہنسی آتی ہے۔ ان ٹائیگرز کی اس وقت کراچی میں بہت ضرورت ہے۔ اب کے تو کراچی والوں نے آپ پر ٹرسٹ کیا تھا پھر آپ کے وہ نفیس لوگ کہاں ہیں۔ لے دے کے فوج بیچاری لوگوں کو بچا رہی ہے محفوظ مقامات پر پہنچا رہی سب کو نظر بھی آ رہی ہے۔ معزز قارئین!آفتیں آتی رہتی ہیں مگر اس میں اپنے حواس بحال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہاں تو کسی کو فکر ہی نہیں۔ آسانتھ کنول نے ایک شعر بھیجا ہے: صرف اک حوصلہ ضروری ہے زندگی نام ہے امیدوں کا میں نے تو دوسرے مصرع میں تصرف کر کے کہا کہ زندگی نام ہے نصیبوں کا ہم ویسے بھی تو کہتے ہیں میرے نصیب مرے۔ کاش اے کاش ہمارے اندر حب الوطنی جاگ جائے اور ہم ان بارشوں سے نمٹنے کا کوئی مستقل انتظام کریں یہ کب سے ہوتا آ رہا ہے کہ پہلی ہی بارش میں ہمارے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اب کے تو خیر حد ہی ہو گئی ہے بارشوں کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ اب ذہن میں آتا ہے کہ ڈیم کس قدر ضروری ہیں یہی اضافی پانی طاقت بن سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی اہمیت سے ہم انکار کر کے سیاست چمکاتے رہے۔ بہرحال یہ قومی سطح پر سوچنے کی بات ہے۔ اس وقت تو کراچی بریانی کا راج ہے اور من چلے ان پانیوں میں بھی چھلانگیں لگا کر ویڈیو اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ کتنے لوگوں نے چھتوں پر رات گزاری۔ اختر حسین جعفری کی ایک لائن یاد آ رہی ہے اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب۔اس کے بھی کچھ تقاضے ہیں کہ اس کی زمین پر کتنا ظلم روا رکھا گیا ہے۔ پھر بھی دعا تو اسی سے مانگنی ہے جو مسبب الاسباب ہے اور تو کوئی در بھی نہیں ایک شعر کے ساتھ اجازت: تجھے خبر نہیں کیا ہے یہ آگہی کا عذاب ترا خیال بھی جب ساتھ چھوڑ جاتا ہے