ہمارے ہاں مخصوص مفادات کے حامل گروہ اور طبقے اتنے مضبوط ہیں کہ جب بھی ملک کے کسی شعبہ میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اکثر و بیشتر اسکی مزاحمت کرتے ہیں۔ ہر تبدیلی کے خلاف طاقتور گروہ موجود ہیں۔یہی معاملہ قانونی اورعدالتی اصلاحات کے بارے میں درپیش ہے۔ جیسے ہی حکومت نے فوجداری قوانین میں مجوزہ ترامیم کا اعلان کیاوکلاء تنظیموں نے فوری طور پر اُن کی مخالفت شروع کردی۔ ملک میں شورش و فساد برپا کرنے والے طبقات عام لوگوں سے زیادہ سرگرم رہتے ہیں۔ عام آدمی بے چارہ روزگار اور روزمرہ زندگی کے مسائل میں اُلجھا رہتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ نجی محفلوں میں اپنی تکالیف کا تذکرہ کردیتا ہے ۔کسی بھی قسم کی تبدیلی کی مخالفت کرنے والے منظم ہیں۔ وہ میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے اور حکومت کو دباؤ میں لانے کے گُر جانتے ہیں۔ اس لیے اکثر و بیشتر اپنی کوششوں میں کامیاب رہتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کو لیجیے۔ حکومتی اختیارات کو صوبوں سے ضلعوں اورتحصیلوں کی سطح پر منتقل کرنے اور ایک باختیار بلدیاتی نظام لانے کی جب بھی کوشش ہوتی ہے ‘روایتی سیاستدان اور افسر شاہی مل کر اس کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اقتدار پر اُن کی اجارہ داری کمزور پڑ جائے اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد بلدیاتی اداروں کے ذریعے نظام حکومت میں شریک ہوجائیں۔ سرکاری اداروں کی خراب حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان کی سول سروس کا ڈھانچہ پرانا ہوگیا اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں رہا۔ادب کے مضمون میں ایم اے کرنے والے معاشی امور اور خارجہ پالیسی جیسے سرکاری محکموں کے اونچے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ دنیامیں اختصاص‘ اسپیشلائزیشن کا دور دورہ ہے۔ لیکن پرانے بیوروکریٹس سول سروس میں اصلاحات کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ پولیس کے معاملہ کو لیجیے۔ عوام کی سب سے زیادہ شکایات اس محکمہ کے بارے میں ہیں۔ لیکن ارکان ِاسمبلی نہیں چاہتے کہ پولیس کو غیرسیاسی بنایا جائے ۔ وہ پولیس کا اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے حکومت بنانے کے بعد پنجاب پولیس میں اصلاحات کے لیے ایک دو سینئیر افسر مقرر کیے۔ بعد میں انہیں ہٹا دیا۔ اگر پولیس کے قانون اور شعبہ کو ازسر ِ منظم کیا جاتا تو ارکان اسمبلی بغاوت کردیتے۔ عمران خان کووفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت بچانا مشکل ہوجاتا۔ انہوں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر واپس اُسی جگہ پر رکھ دیا۔ گزشتہ برس کے اوائل میںسینکڑوں اجلاس میں مشاورت کے بعدوفاقی وزارت تعلیم نے ملک کے تمام سکولوں اور مذہبی مدارس کے لیے یکساں تعلیمی نصاب بنایا لیکن اسکے جاری ہوتے ہی میڈیا میں اسکے خلاف مہم شروع کردی گئی۔اس کے مثبت نکات کی پذیرائی کرنے کی بجائے اس پر بے سروپا تنقید ہونے لگی۔ سندھ حکومت نے اس نصاب کو رائج کرنے سے صاف انکار کردیا۔امیر لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کا بچہ پرائیویٹ مہنگے سکول میںوہی نصاب پڑھے جو ایک غریب ماں باپ کی اولاد کو عام سکول میں پڑھایا جاتا ہے۔ تین صوبوں میں یکساںنصاب رائج کردیا گیا لیکن اس پر پوری طرح عمل نہیں ہورہا۔ نجی سکولوں نے خود کو ممتاز و منفرد رکھنے کے لیے کئی راستے نکال لیے ہیں۔جیسے ہی وزیراعظم عمران خان کی حکومت جائے گی یکساں نصاب تعلیم کا وہی حال ہوگا جو جنرل پرویز مشرف کے جانے کے بعد ان کے متعارف کردہ میونسپل حکومتوں کے نظام کا ہوا تھا۔ اب تازہ قضیہ عدالتی اصلاحات کا ہے۔ ہر کس وناکس کو شکایت ہے کہ ہمارے نظام عدل میں مقدمات کے فیصلے بہت تاخیر سے ہوتے ہیں۔ لوگ عدالتوں کے دھکے کھا کھا کر ہلکان ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ صرف اس ڈر سے عدالتوں کے دروازہ پر دستک نہیں دیتے کہ فائدہ کی بجائے نقصان ہوجائے گا۔ گزشتہ ہفتہ وفاقی کابینہ نے ملک کے فوجداری(کرمنل) نظام انصاف میں اصلاحات کرنے کی خاطر متعلقہ قوانین میں بڑے پیمانے پر ترامیم کرنے کی منظوری دی۔ حکومت نے تعزیرات پاکستان‘ قانون شہادت اور ضابطہ فوجداری میں ترامیم تجویز کی ہیں۔ مجوزہ ترمیم کے تحت عدالتیں پابند ہوں گی کہ وہ نو ماہ کے اندر اندر کسی فوجداری مقدمہ کا فیصلہ سنائیں۔ان کے تحت ملزم اور استغاثہ کو پلی بارگین کا حق دیا جائے گا کہ وہ مقدمہ سے بچنے کے لیے جرم قبول کرکے تصفیہ کیلیے کوئی جرمانہ یا سزا قبول کرلے۔نئی ترامیم کے تحت جدید ٹیکنالوجی کوثبوت کے لیے استعمال کیا جاسکے گا جیسے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ۔گواہ ویڈیو لنک کے ذریعے شہادت دے سکیں گے۔اسی طرح حکومت مفرور ملزموں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرسکے گی۔ یہ تو چند موٹی موٹی باتیں ہیں ایسی درجنوں مزید اصلاحات ہیں جو قوانین کو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے پیش کی گئی ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم کے اندراج‘تفتیش اور عدالتی عمل کو بہتر بنانے کے لیے کئی ترامیم کی گئی ہیں۔ ان صلاحات کو حتمی شکل دینے کے لیے سینئر وکلا‘ قانون دانوں سے بڑے پیمانے پرمشاورت کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کا انتخابی وعدہ تھا کہ وہ ملک کے نظام انصاف میں بہتری لائے گی تاکہ لوگوں کو جلد اور سستا انصاف ملے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت بنے ساڑھے تین برس گزر گئے۔ ان پر تنقید کی جارہی تھی کہ وہ ملکی نظام کے کسی شعبہ میںوہ اصلاحات متعارف نہیں کرواسکے جن کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔اب انہوں نے فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات کی منطوری دی ہے تو وکلا تنظیمیں مخالفت پر آمادہ ہیں۔حسب ِتوقع متعدد وُکلا تنظیموں اور بار ایسوسی ایشنوں نے حکومت کی تجویز کردہ قانونی ترامیم کو مسترد کردیا ہے۔انسانی حقوق کے علمبردار اور دانشور بھی منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں۔ملک میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے ۔ لوگوں کی سیاسی وابستگیاں ہیں اور وہ کسی کام کو میرٹ پر پرکھنے کی بجائے سیاسی تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ نظام ِعدل میں اصلاحات کا کام اتنا اہم ہے کہ سول سوسائٹی کوحکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ ان اصلاحات میں کوئی کمی بیشی ہے تو اس کے بارے میں شہری تنظیموں ‘ دانشوروںکو اپنی رائے دینی چاہیے کیونکہ پارلیمان سے منظوری سے پہلے ان میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے۔فوجداری نظام انصاف میں مجوزہ ترامیم کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔ وہاں ان پر ایوان بالا اور ایوان زیریں میں قائمہ کمیٹیوں میں بحث ہوگی ۔ ان کمیٹیوں میںحکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمینٹ موجود ہیں۔ وہ ترامیم میں تبدیلیاں تجویز کرسکتے ہیں۔ اس مرحلہ سے گزرنے کے بعد مجوزہ مسودہ قانون کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔قومی اسمبلی میں حکومت اور اسکے اتحادیوں کی اکثریت ہے ۔ وہاں سے ان اصلاحات کی منظوری آسانی سے ہوجائے گی لیکن سینٹ سے انکی منظوری مشکل ہوسکتی ہے۔ شاید حکومت کو اس کام کے لیے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلانا پڑے۔مخصوص مفادات کے حامل گروہ ان اصلاحات کی جتنی بھی مخالفت کریں حکومت کو پُرعزم ہو کر انہیں منظور کروانا چاہیے۔ یہ اصلاحات عوام کے مفاد میں ہیں۔ اگر قانونی ترامیم نافذ ہوگئیں تو یہ وزیر اعظم عمران خان کا تاریخی کارنامہ ہوگا۔