جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں حسب سابق یوم آزادی کی سب سے بڑی تقریب میں صدر ممنون حسین جوان کی بطور صدر الوداعی تقریب تھی روایتی بات کی کہ پاکستان کی ترقی کا رازووٹ کی طاقت میں مضمر ہے۔ صدر مملکت کے اس نکتے سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کاوجود ہی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی جمہوری کاوشوں کا نتیجہ ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز کا قیام ووٹوں کے ہی مرہون منت ہے لیکن پاکستان میں سات دہائیوں سے ووٹ کی جو بے توقیری ہوئی ہے وہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بانیان پاکستان جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کے جانشینوں نے ووٹ کا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اقتدار اور دولت کے حصول کی اندھی دوڑ میں وطن عزیز سرزمین بے آ ئین بنا رہا۔ سیاستدانوں کی باہمی چپقلش اور لڑائی کی وجہ سے کوئی مضبوط سیاسی حکومت نہ بن پائی اسی لئے پاکستان کے پہلے پاکستانی کمانڈرانچیف جنرل ایوب خان کی رال ٹپکنا فطری بات تھی۔ یہ سازشی جرنیل پیچھے بیٹھ کر طنابیں ہلا رہا تھا۔پہلے ایک اور ریٹائرڈ جنرل سکندر مزرا کو آگے کیا گیا۔ بڑے طمطراق سے 1956ء کا وفاقی پارلیمانی آئین بنا لیکن اس وقت کے جنرل ایوب خان کے عزائم ہی کچھ اور تھے، بالآخر 7اکتوبر1958ء کو اقتدار پرپہلی مرتبہ شب خون ماراگیا اورما رشل لا لگاد یا گیا ۔فوجی آمریت کی یہ اندھیری رات ایک دہائی تک جاری رہی۔ ایوب خان کا واکھیان تھا کہ جمہوریت کے نام پراور ووٹ کی طاقت سے بننے والے پاکستان کے ان پڑھ عوام جمہوریت کے قابل نہیں ہیں، اسی بنا پر نام نہاد بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ کیا گیا جس میں 80ہزارگماشتے پاکستان کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے۔ اس بات کا بھی خیال نہ کیا گیا کہ ایسی پالیسیوں کے پاکستان کے مشرقی بازو پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔اس دور سے سیاستدانوں کو غدار کہنے کی فیکٹریاں لگ گئیں۔حتیٰ کہ ایوب خان نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح جنہیں مادر ملت بھی کہا جاتا تھا پر بھی غدار کالیبل چسپاں کر دیا محض اس لئے کہ محترمہ نے ایوب خان کی فوجی آمریت کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی۔ آج بھی پاکستان میں امیر اوربہرہ ور طبقے کے بہت سے لوگ ایوب خان کے مداح ہیں، ان کے مطابق اصل ترقی ان کے دور میں ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ ترقی صرف مغربی پاکستان تک محدود تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ ووٹ کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایوب خان اقتدار سے رخصت ہوئے توانھوں نے 1962ء میں دئیے گئے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار ایک اور جرنیل فوج کے سربراہ یحییٰ خان کو منتقل کردیا۔ ملک میں عام انتخابات ہوئے جن میںشیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔ اب ہمارے جرنیل اور مغربی پاکستان کے سیاستدان جن میں ذوالفقار علی بھٹو بھی پیش پیش تھے، مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے سے گریزاں تھے جس کے نتیجے میں’’غدارمجیب الرحمن‘‘ اور اس کے کروڑوں حامیوں کو راہ راست پر لانے کے لیے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی گئی جو ملک کے دولخت ہونے پرمنتہج ہوئی۔ نتیجتاً ذوالفقار علی بھٹو بچے کھچے ملک پر حکمران بن گئے۔ اصولی طور پر تو مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد فوجی قیادت کو اپناکام ہی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن بھٹوکے منتخب کردہ چیف آف آرمی سٹاف ایک انتہائی خوشامدی اور عیارجرنیل ضیاء الحق تھے۔اس جرنیل کیلئے بھی راہ ان سیاستدانوں نے ہموار کی جو بھٹو کو کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو اقتدار پرقبضہ کرلیا۔وہ یہ کہہ کر اقتدار میں آئے کہ 90دنوں کے اندر الیکشن ہونگے لیکن پھر انھوں نے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگا کر اقتدار پر گیارہ برس تک قبضہ کیے رکھا۔ اس دوران انھوں نے ووٹ کی یہ عزت افزائی کی کہ پہلے تو یہ کہا کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کاوجود ہی نہیں لہٰذا انتخابات غیر جماعتی ہونگے لیکن جب غیر جماعتی انتخابات کی کوکھ سے جنم لینے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کل پرزے نکالنے شروع کئے تو ضیاء الحق نے انھیں خود فارغ کردیا۔ ہر آمر اپنی مرضی کے سویلین حکمرانوں کو آگے لاتا رہا جس طرح نوازشریف ضیاء الحق کی پیداوار ہیں۔ ضیاء الحق نے اسلام کی مخصوص تاویل کی آڑ میں 1973ء کے آئین میں جو بنیادی تبدیلیاں کیں آج تک ہمارے گلے کا طوق بنی ہوئی ہیں۔ وہ اپنے ڈھب کا اسلام نافذ کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اورمنظور تھا اور ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو بہاولپور کے نزدیک سی ون تھرٹی طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ عام طور پر یہی باور کرایا جاتا ہے کہ ضیاء الحق کو ایک سازش کے تحت راستے سے ہٹایا گیا۔ویسے بھی جونیجو کو برطرف کر کے ضیاء الحق نے خود کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا تھا۔ ان کے بعد ملک میں کہنے کو تو جمہوریت بحال ہوئی لیکن آرٹیکل 58ٹوبی کے تحت وزیراعظم اور اسمبلیوں کو گھربھیجنے کا اختیار صدر کے پاس ہی رہا۔ صدر غلام اسحق خان اور ان کے بعد فاروق لغاری نے اس متنازعہ شق کو اس وقت کی فوجی قیادتوں کے ایما پر بلاجھجک استعمال کیا۔ نواز شریف نے دوسری بار برسراقتدار آکر اس شق کو ختم کردیا لیکن اس کے باوجود ایک اور جرنیل جنہیں میاں نواز شریف نے محض اس بناپرکہ وہ مہاجر ہیں لہٰذا ان کاکوئی حلقہ نہیں ہو گاآرمی چیف لگایا تو جنرل پرویز مشرف نے بھی12 اکتوبر 1999ء کو جمہوریت کا کام تمام کردیا۔ یہ آمر بھی کہتا رہا کہ ووٹ کی عزت جمہوریت کوگراس روٹ لیول تک پہنچانے میں مضمر ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ڈھب کے بلدیاتی نظام کو پارلیمانی جمہوریت کا نعم البدل قراردیتا رہا۔ پرویز مشرف بھی اپنے پیشروفوجی آمروں کی طرح احتساب کا نعر لگاکر میدان میں اترا۔ نیب کا ادارہ اس کی دین ہے لیکن اس کے ذریعے وہی کرپٹ سیاستدان جن کوپرویز مشرف نے ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا انھیں ہی ساتھ ملا کر مسلم لیگ(ق) اور پیٹریاٹس بنائیں۔ وطن عزیز میںووٹ کی عزت کے نعرے کا آج کل بہت چرچا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں نے اس کیلئے کیا کیا؟اس حوالے سے ان کا کردار بھی کوئی اچھا نہیں رہا۔حال ہی میں میاں نواز شریف نے چار سال حکومت کی، پارلیمنٹ سے ووٹ لینے کے بعد انہوں نے اس کا رخ شاذ ہی کیایہاں تک کہ کابینہ کے اجلاس بھی نہ ہونے کے برابر ہوئے۔کسی بڑے فیصلے سے قبل عوام کی رائے لی گئی؟ بات پھر کی جاتی ہے ووٹ کو عزت دو۔جب ووٹ لینے والے عوام سے ایسا سلوک کریں گے تو پھرکسی اور سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ 2008ء سے اب تک ووٹ کے ذریعے تین جماعتیں برسراقتدار آنے اورجمہوری انداز سے پر امن انتقال اقتدار ہونے کے باوجود کیا واقعی ملک میں جمہوریت کا احیا ہو چکا اور ووٹ کی عزت بحال ہو گئی ہے؟۔حالیہ ایک بر س کے واقعات کسی حد تک ان دعوؤں کی تائید نہیں کرتے۔احتساب کے عمل کے بارے میں یہ شکایت عام ہے کہ اسے بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے یا انتقامی کارروائیوں کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے مطابق جس انداز سے حالیہ انتخابات سے پہلے انجینئرنگ کی گئی وہ ووٹ کی عزت کی سپرٹ کے خلاف ہے۔ اسی طرح بعض میڈیا گروپس نے شکایت کی کہ ان کی پالیسیوں کی بنا پر ان پر قدغن لگائی جارہی ہے۔ ووٹ کی بے توقیری یہ بھی ہے کہ عمران خان جو مقبول لیڈر ہیں انھیں اسٹیبلشمنٹ کا پودا بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔اب یہ نومنتخب وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف جمہوریت بلکہ ووٹ کی عزت کو اس کی حقیقی روح کے مطابق بحال کریں۔