اٹھارہ سو ستاون کے بعد ہندوستان میں چاروں جانب تہذیب کے نام پہ رقص کرتی بد تہذیبی اور نفاذِ قانون کی آڑ میں بدمست لاقانونیت کو دیکھ کر اپنے عہد کے منفرد شاعر حکیم مومن خاں مومن نے علامتی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا تھا: شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن رات کاٹی خدا خدا کر کے یقین کریں وطنِ عزیز کے ہر معقول آدمی نے بھی آٹھ فروری والے الیکشن کے متعلقات، طریقِ کار اور اس سلسلے میں ماضی کے ہر الیکشن سے بڑھ کے جمہوریت کے نام پہ اڑائی جانے والی بدتمیزی، نا انصافی، بے شرمی، یک طرفگی، نہلا نوازی کی بَھد کو بھی اسی طرح بھگتا۔ ازکارِ رفتہ کھلونوں میں جعلی میندیٹ کی چابی بھرنے اور دیکھے بھالے بونوں کو جانے کس مجبوری کے تحت مصنوعی قامت عطا کر نے کے لیے روابط و ضوابط کا جس طرح سے حشر نشر کیا گیا، اس پہ تاریخ، جغرافیہ، اخلاقیات، سماجیات سب شرمندہ ہیں۔ ہمارے ہاں ہر بار الیکشن کے پردے میں ’بچہ جمورا‘ قسم کا نظام قائم کرنے کے لیے پھیلائی جانے والی جہالت، بدتہذیبی، دھونس اور ہٹ دھرمی کو دیکھ کے لالہ بسمل نے سچ ہی کہا تھا: ووٹاں پان نوں جی نئیں کردا دھوکا کھان نوں جی نئیں کردا مَجاں ورگے لوک نے اوتھے بِین وجان نوں جی نئیں کردا ویکھ کے موج جہالت والی بال پڑھان نوں جی نئیں کردا سچی گل مَیں دس تے دیواں دَھون پنان نوں جی نئیں کردا الیکشن سے قبل ایک دوست نے اطلاع دی کہ ان کے خاندان کے کل پچیس ووٹ تھے، جو قریب قریب رہائش پذیر ہونے کی بنا پر ایک ہی پولنگ اسٹیشن پر ہونے چاہئیں تھے، جانے کس شبہے کی بنا پر انھیں مختلف شہروں میں بانٹ دیا گیا۔ پہلے تو یہ خبر کچھ عجیب سی لگی لیکن جب تواتر سے ایسی اطلاعات آنا شروع ہوئیں کہ نئی نسل کو شعور کی سزا دینے کے لیے گلبرگ کی کسی بچی کا پہلا ہی ووٹ مریدکے میں اور شادمان کی کسی عزیزہ کا انتخابی علاقہ کامونکی بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے ایک سینیئر پروفیسر دوست نے بتایا کہ ان کی دو بیٹیوں کے ووٹ بہاولپور، بیوی کا ملتان اور ان کا اپنا رائیونڈ کے کسی سکول میںتھا۔ حتیٰ کہ ہمارے اپنے دو بچے کہ جن کا چند ہی ماہ قبل شناختی کارڈ ہمارے ایڈریس کے ساتھ بنا تھا، انھیں لاہور گوجرانوالہ جی ٹی پہ واقع کسی ایلیمنٹری سکول کی راہ دکھائی گئی تو اس بدبودار نظام کی عفونت میں اضافہ ہو گیا۔ اس کوڑھ نظام کو ترکیب دینے والوں کو یہ بھی علم نہیں کہ ایسی حرکات نئی نسل کے دلوں میں نفرت بھرنے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ ہماری ایک عزیزہ جوقبل ازیں انھی لنگڑے گھوڑوں کی تعریف میں رطب اللسان رہا کرتی تھیں، اپنے پہلے ووٹ کا حشر دیکھ کے اب منھ بھر بھر کے بددعائیں دیتی ہے ۔ اس سے ہمیں وہ حکایت یاد آ گئی جس میں ایک دینی تبلیغ کی جماعت کے کسی بستی میں رات گزارنے کی بابت بیان تھا کہ جماعت کا ایک رکن اپنے ساتھیوں کے روکنے کے باوجود اپنی بھدی آواز میں اذان دے دیتا ہے اور صبح بستی کے کچھ لوگ ان کا شکریہ ادا کرنے آتے ہیں کہ ان کی ایک عزیزہ جو سب کے منع کرنے کے باوجود اُن کے دین کی طرف دل جان سے راغب تھی، رات والی آواز سن کے تائب ہو گئی۔ سب سے پہلی مایوسی تو ان نسلی سیاست پرستوں کی گھسی پٹی تقریریں سن کے ہوئی۔ مجال ہے کسی کے منھ سے ملک کے مستقبل، نئے تعلیمی نظام، پولنگ کے جدید سسٹم، نوجوانوں کی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے یا حقیقی جمہوریت کے فروغ کی بات سنی گئی ہو۔ ایک صاحب اپنے ہر خطاب میں یہی کہتے پائے گئے کہ مَیں سب کو روٹی کپڑا اور مکان دوں گا، بجلی کے تین سو یونٹ فری ، نوکریاں، مکان اور مالکانہ حقوق وغیرہ دوسرے صاحب کی مستقل رَٹ تھی کہ میرے زمانے میں روٹی چار روپے کی ہوتی تھی۔ انھیں کون بتاتا کہ ان کے دادا جی کے زمانے میں بھینس تیس روپے کی ہوتی تھی۔ دوسرے کے دادا تو شاید مفت ہی لے آتے ہوں گے۔ یوں لگتا ہے ان صاحبان کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ اس ملک میں نو اپریل 2022ء کے بعد بھی انھی کی حکومت تھی، جو چھینک مارنے کے لیے بھی لندن سے رجوع کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے جانے کے بعد بھی آج تک انھی کا بنایا ہوا نظام ہی بر سرِ عمل ہے۔ پچھلی حکومت تو بجلی کا یونٹ چودہ روپے اور پٹرول، ڈالر ڈیڑھ سو کے لگ بھگ چھوڑ کے گئی تھی۔ آٹا پچھتر روپے اور چینی اَسّی روپے پہ مقیم تھی۔ قومی خزانے میں بائیس ارب ڈالر بھی موجود تھے۔ سچ پوچھیں لوگ تو ان کے منھ سے یہ سننا چاہ رہے تھے کہ یہ اسی ملک سے بنائے گئے اپنے بیش بہا غیر ملکی اثاثوں کو ملک میں واپس لانے کا اعلان کریں گے۔ خدا ہمارے بھائی سراج الحق کو سیاسی سوجھ بوجھ عطا کرتا تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس الیکشن میں سب سے نادر موقع جماعت اسلامی کے لیے تھا۔ اس الیکشن کی آنکھوں دیکھی کہانی تو یہ ہے کہ پولنگ اسٹیشن کے قریب دن بھر کھڑے چوکیدار نے شام کو بتایا کہ مَیں نے کئی الیکشن اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھے ہیں، جو جوش و ولولہ لوگوں میں اب دیکھا ہے، وہ بے مثال ہے، سارا دن نوجوان، بوڑھے، حتیٰ کہ معذور افراد بھی کسی موہوم امید کی خاطر گروہ در گروہ ووٹ ڈالنے آتے رہے۔ ہم نے خود بھی پولنگ اسٹیشن گھر کے قریب ہونے کی بنا پر چند چکر وہاں کے لگائے، اپنا ووٹ ڈالنے بھی گئے، قطار میں بھی لگے، چار نمازوں کی مسجد میں ادائیگی کے بعد واپسی بھی اسی راستے سے ہوتی رہی، شاید ہی کسی کی زبان سے ’بے نشان‘ پارٹی کے علاوہ کسی دوسرے کا نام سنا ہو۔ وہ پارٹی کہ شیخ سعدی کے مقولے ’سنگ بستہ و سگ آزاد‘ کے مِصداق جس کا نیٹ، ناطقہ، کمپین، انتخابی سٹال، جلوس، جلسہ، حتیٰ کہ لیڈر تک، سب کچھ بند رکھا گیا۔ پولنگ کے نزدیک سٹال صرف سرکاری پارٹی کا دیکھا، جن کی میز پر جوس اور گاہے گاہے بریانی کے پیکٹ بھی نظر آتے رہے۔ ایک میز پر جماعت اسلامی کی دو بیبیاں بھی نظر آئیں۔ معتوب پارٹی کے لوگ سب کے سب خالی ہاتھ تھے۔ گویا ایک طرف جوس، ایک طرف خلوص… ِادھر بریانی، اُدھر جذبۂحیرانی، ایک جانب پُر عزم لوگ، دوسری طرف پُرہضم مخلوق۔ ان بے وژن اور با وزن سیاست دانوں کو پتہ ہی نہیں چل سکا کہ پہلے جو نسل کھانے پینے کی چیزیں بے حساب مانگتی تھی، اب اُن کا حساب مانگتی ہے۔ گنتی شروع ہوئی تو چاروں پاسے آزاد اور آزادی کی گونج تھی۔ بڑے بڑے بُرج الٹنے کی خبریں بھی چلنے لگیں، جیل، کھیل پر حاوی دکھائی دینے لگی۔ پابندِ سلاسل اور مظلوم خواتین کے قدم مغرور گردنوں پر پڑنے لگے۔ پھر ہر طرف کیمروں کی آنکھوں کے سامنے جتنے بھدے انداز میں جدید سسٹم کو بٹھایا اور قدیم سسٹم کو اٹھاکے پرانی طرز کا مکس اچار تیار کیا گیا، اس کے لیے شرم، حیرت، حمیت کے الفاظ بہت چھوٹے ہیں۔ شاعر نے کہاتھا: خوب کرنے کے لیے بھی ظرف ہونا چاہیے ڈوب مرنے کے لیے بھی ظرف ہونا چاہیے آخر میںیہی دعا ہے کہ خدا اس بد قسمت ملک کو اپنی حفظ و امان میں رکھے!!!!