کوئی مرکز بھی نہیں کوئی خلافت بھی نہیں سب ہی حاکم ہیں مگر کوئی حکومت بھی نہیں ایک انداز بغاوت ہے مرے لہجے میں اب وہ پہلا سا مرا طرز تخاطب بھی نہیں اب تو نہ ناوک ہے نہ کمان سب کچھ بس گمان میں ہے ہم ایٹمی طاقت کچھ ایسے ہیں کہ سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ یہ سارا نظامت حرمت اور اس جھوٹ پہ حاکم کو ندامت بھی نہیں اپنی بدبختی کہ وہیں جینا ہے جہاں انصاف نہیں اور عدالت بھی نہیں شاید میں کسی اور ملک کی بات کر رہا ہوں اس ایک شعر جلیل عالی کا نظر نواز ہوا: نقب ایسی لگائی ہے عدو نے کہ سکتے میں پڑی ہے پاسبانی سیاست دان رنگ کیسے بدلتے ہیں گرگٹ کی سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ حضرت انسان کے کیا کہنے کہ اس کی جگہ جب جانوروں نے قبضہ کر لیا تھا اور نظام شروع کیا تو وہ سارے وعدوں کے باوجود انسان کے اثر سے نہ بچ سکے۔آپ درست سمجھے کہ میں اینیمل فارم کی بات کر رہا ہوں ۔چارج ارول نے کمال نقشہ کھینچا ہے کہ انسان کے بے دخل ہونے کے بعد وہ سارے ہتھکنڈے انسان ہی سے سیکھتے رہے مگر انسانوں کے اندر بھی تو غ۔۔۔۔کہ ایک ایسا گروہ بھی جس انسان خود حیرت زدہ رہ جاتا ہے جانوروں میں جو اشرافیہ تھے، وہ ذہنی کام کرنے کے عوض سیب اور دودھ استعمال کرتے تھے ج جن کا استعمال باقی جانوروں کے لئے ممنوع تھا۔ عمران خاں کا بیان کہ سب سے بات ہو سکتی ہے ، حملہ آوروں کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ کمال ہی تو ہو گیا ، اب تک ہم خان صاحب سے یہی کہتے آئے ہیں کہ جناب اسمبلی میں رہیں مکالمہ کریں اپوزیشن سے مل بیٹھیں مگر ایک ہی جواب چوروں ڈاکوئوں سے بات نہیں ہو گی۔ این آر نہیں دوں گا ۔ شاید اب بھی وہ سب سے بات کرنے والی بات کسی اور کے لئے کر رہے ہیں ۔ یہ بات ان کی درست ہے کہ انتخابات سے استحکام آئے گا۔حکومت تو متزلزل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کھیر کھا گئے عمران خاں اور بل انہیں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔وہ ان کے لئے خطرناک سرنگیں بچھا کر گئے لیکن ان سرنگوں عوام یہ ٹکرا رہے ہیں۔ چونکہ میں بنیادی طور پر شاعر ہوں اور ہمیں تو کہیں بھی قافیہ ملتا نظر آئے تو کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور تو اور مریم اورنگزیب کی قافیہ آرائی اچھی لگی۔ آپ اس بیانیہ سرخی کو نثری غزل کہہ لیں ۔کہتی ہیں دو سال جیل بمقابلہ فوری بیل اچھا اشارہ کیا ہے کہ نواز شریف کو ہر صورت میں جیل جانا تھا جبکہ خان صاحب رعایت ملنا تھی۔ مریم اول یعنی مریم نواز بھ کا کہنا ہے کہ عمران داری کا ٹرک ڈرائیور سمیت پکڑا گیا یہ بھی بلیغ اشارہ ہے مگر اس بات کو ہم بڑھا نہیں سکتے ۔شہباز شریف فرما رہے ہیں کہ امریکہ سے تعلقات مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس بیان پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔ امریکہ سے تعلقات چہ معنی دارد۔ مزید اور کیا بہتر بنائیں گے آپ، پہلے ہی آپ کی کمر سیدھی نہیں ہوتی اور رات کو نیند نہیں آتی اس پر ایک پیروڈی یاد آ گئی: ہم نے اقبال کا کہا مانا اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے جھکنے والوں نے عظمتیں پائیں ہم خودی کو بلند کرتے رہے آج تو خواجہ آصف بھی شاعرانہ موڈ میں تھے اور انہوں نے اقبال کے ایک شعر کی پیروڈی کہہ ڈالی ۔میری دو نمبری دیکھ کیا چاہتا ہوں یہ شعر یوں ہے کہ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ،میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔ اس لاجواب اور اچھوتے شعر کو کس مقصد کے لئے استعمال کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ پرانے چیف کے کورٹ مارشل اور موجودہ سے ملاقاتوں کی خواہش۔اقبال کا یہ شعر حیرت ناک تنوع رکھتا ہے۔ مجھے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بات نے متاثر کیا کہ وہ حقیقت پر مبنی ہے کہ عالمی مالیاتی نظام امیر ملکوں نے اپنے فائدے کے لئے ڈیزائن کیا ہے۔ دوسرا حصہ بھی اس بیان کا ہونا چاہیے کہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو نقصان پہنچانے کے لئے ان مالیاتی اداروں کی محبت مسلمان ملکوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ہے ۔یہ محبت ہمارے اندر تو بری طرح سرایت کر چکی ہے کہ رہائی ملی بھی تو مر جائیں گے۔ دیکھا جائے تو اب زمانہ بدل چکا قبضہ ہو۔ قبضہ اب معاشی ہی ہوتا ہے۔ کل سے ایک خبر اور گردش کرتی رہی اور آج چھپ بھی گئی کہ سلمان شہباز گلدستہ لانے والے کا ہاتھ جھٹک دیا اس پر ن لیگی ورکر نے ان کے خلاف احتجاج کیا۔ کمال ہے یہ کیا احتجاج ہے بھئی ،یہ تو پیپلز پارٹی تو ہے نہیں کہ آپ اتنے فرینک ہو جائیں یہ تو بادشاہوں کی جماعت ہے اور اس ورکر بے چارے کو کیا پتہ کہ نازک مزاج شاہاں تاب سخن نہ دارد۔ آج کل تو ویسے بھی انتخاب کے ڈر سے بے چاروں کے ہوش اڑے ہوئے ہیں شعر تو مجھے یہ یاد آیا: نہ چھیڑ اے نگہت باد بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں جاتے جاتے حج کی بات کر لیں کہ اب نیکی کمانی بھی آپے میں نہیں۔یہ کام بہت مہنگا ہو چکا کتنے لوگ ہونگے جنہوں نے پس انداز کر کے پیسے اکٹھے کئے ہونگے اور اس مہنگائی نے جمع شدہ رقم کو کم کر دیا حج اب بارہ لاکھ روپے سے تجاوز کرتا نظر آ رہا ہے۔ اس سے وابستہ دوسرے اخراجات بھی اسی حساب سے بڑھیں گے حکومتیں اس فریضہ کے کوئی سہولت نہیں پہنچاتیں۔ ہم جب 2019ء میں حج کرنے گئے تو منیٰ میں بھی کھانا ملا تو پیکٹوں پر انڈیا کا نام اور کمپنی موجود تھی۔ حیرت ناک بات یہ تھی کھانا ایکسپائر ہو چکا تھا اس میں سے بوآ رہی تھی شکایت کی تو پتہ چلا سرکاری کام ہر جگہ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ ہم سود کے میدان میں جمپ لگاتے اعلان جنگ کر رہے ہیں یہ شرح اسرائیل میں 4فیصد انڈیا میں 6فیصد ہے اور پاکستان میں 20فیصد۔ ہم سے زیادہ سستا کوئی نہیں سجاد بلوچ کے شعر کے ساتھ اجازت: تو جو کرتا ہے خریدی ہوئی چڑیاں آزاد یہ تو کفارہ نہیں پیڑ کی بربادی کا