اس وقت عالمی سیاست پر مشرقی یورپ کے ملک یوکرائن کا مسئلہ چھایا ہوا ہے۔یوکرائن پر روسی فوج کشی کے خدشات کے درمیان رُوس اور ـ امریکہ میں سفارتکاری زوروں پر ہے۔ رُوس کی ایک لاکھ فوجیں یوکرائن کی سرحد پر تعینات ہیں۔ سرحد پر ایندھن کے ڈپو بنادیے گئے ہیں اورفیلڈ ہسپتال قائم کردیے گئے ہیں۔ ماسکو نے ریزرو فوجی ڈیوٹی پر بلائے ہوئے ہیں۔شمالی کوریا ایسے دور دراز مقام سے روسی فوجیوں کو مغربی سرحد پر بھیج دیا گیا ہے۔ یوکرائن کے شمال میں واقع ماسکو کے اتحادی ملک بیلا رُوس میں ایک بٹالین رُوسی فوج تعینات کردی گئی ہے۔ یعنی رُوس دواطراف سے محاذ کھول سکتا ہے جن کا دفاع اس چھوٹے سے ملک کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔ ہر طرح سے جنگ کی تیاری مکمل ہے۔ صرف کریملن کے ایک اشارہ کی دیر ہے۔ رُوسی میڈیا میں جنگ کا ماحول نہیں بنایا جا رہا جو ان حالات میں بنایا جاتا ہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ُروس کی سرحد سے ملحق وہ علاقے جہاں رُوسی النسل آبا دی غالب اکثریت میں ہے وہ یوکرائن سے الگ ہو کر اپنی خود مختاری کا اعلان کردیں اور ان کے تحفظ کیلئے توماسکو کی فوجیں پہنچ جائیں۔تاہم کریملن نے بار بار تردید کی ہے کہ اسکی فوجیں یوکرائن پر حملہ کرنے والی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے رُوس کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس کیلئے تباہ کُن ہوگا۔ گزشتہ جمعہ کو جنیوا میں امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکِن اور روسی وزیر خارجہ سرگی لاوروف کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے یوکرائن کے مسئلہ پر بات چیت کی۔ملاقات کے اختتام پر امریکی سفارت کار نے وعدہ کیا کہ واشنگٹن اگلے ہفتہ ماسکو کے سلامتی سے متعلق مطالبات پر تحریری جواب دے گا اور اپنا موقف واضح کرے گا۔ ان دونوں نے اس امکان کا اظہار بھی کیا کہ جلد اس معاملہ پر دونوںملکوں کے سربراہوں کی ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ انکی روسی ہم منصب سے بے تکلفانہ بات چیت ہوئی۔ تاہم انہوں نے اس دھمکی کو دہرایا کہ اگر یوکرائن پر حملہ ہوا تو مغرب کا روس کے خلاف شدید جوابی ردعمل ہوگا۔ دوسری طرف‘ سرگی لاوروف نے میڈیا کو بتایا کہ اُنہیں امید ہے کہ جذباتی فضا میںکمی آئے گی۔ فروری میں برطانیہ کے وزیر خارجہ بھی اپنے ہم منصب سے ملنے کیلئے ماسکوجارہے ہیں۔ روسی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی جانب سے اس بات کی پکی ضمانت دی جائے کہ یوکرائن امریکہ کی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا اور اس ملک میں ایٹمی ہتھیار نصب نہیں کیے جائیں گے۔ روسی صدر گوربا چوف کو امریکی وزیر خارجہ جم بیکر اورجرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل نے زبانی ضمانت دی تھی کہ نیٹوکے عسکری اتحادکو روس کی جانب توسیع نہیں دی جائیگی لیکن اسکی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی یورپ کے متعدد ممالک جیسے بلغاریہ‘ رومانیہ‘ پولینڈ‘ ہنگری‘ البانیہ‘ لیٹویا‘ لیتھوینیا‘ کروشیا‘ سلووینیا‘ سلویکیا‘ اسٹونیا‘ مونتو نیگرو‘ شمالی مقدونیا اور چیک ری پبلک کو نیٹو میں شامل کرلیا ۔ اب امریکی کہتے ہیںکہ انہوں نے ایسی کوئی ضمانت دی ہی نہیں تھی۔ اس لیے اس مرتبہ روس نیٹو کی توسیع روکنے کے بارے میں تحریری ضمانت طلب کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے روسی مطالبات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرائن کی صورتحال پر مباحثہ یوکرائن کی شمولیت کے بغیر اور نیٹو سے متعلق معاملات پر نیٹو کی شمولیت کے بغیر بحث نہیں ہوسکتی۔ ا س پر روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووانے فقرہ کسا کہ امریکہ اور اسکے اتحادی اپنی اقدار کے بارے میں اُلجھن کا شکار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر بلنکن کی دلیل مانی جائے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں پر مشتمل گروپ آف سیون کے ملکوں کے اجلاس کا نصف وقت ان معاملات پر گفتگو میں گزرا جو ان سے متعلق نہیں ہیں بلکہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان معاملات پر بات کرتے ہوئے گروپ آف سیون نے ان ملکوں کو مدعو کیوں نہیں کیا؟ درحقیقت ‘ اپنے لیے امریکہ کے اور اصول ہیں جبکہ دوسرے ملکوں کے لیے دوسرے اصول۔امریکہ کو دنیا کا تھانیدار بنے رہنے کا شوق ہے حالانکہ اس کی طاقت اتنی کم ہوگئی ہے کہ افغانستان میں بیس سال طالبان سے لڑائی کے بعد شکست سے دوچار ہوا ۔ وہاں سے دُم دبا کر بھاگا۔اب اپنی عزت کی بحالی کے لیے یوکرائن میں بحران پیدا کردیا ہے۔ کچھ عرصہ سے امریکہ کے نگرانی کرنیوالے جنگی طیارے یوکرائن میں پروازیں کرنے لگے ہیں۔ امریکہ نے بالٹک ریاستوں سے میزائل سسٹم بھی یوکرائن منتقل کیے ہیں۔ امریکہ کے پٹھو برطانیہ نے یوکرائن کو ٹینک شکن گائڈڈ میزائل فراہم کیے ہیں۔ فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ ان میزائلوں کی وجہ سے روسی ٹینک شہروں میں داخل نہیں ہوسکیں گے لیکن وہ باقی علاقوں میں جاسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ جنگ کی صورت میںروس کو زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑیگا۔ امریکہ اور اسکے اتحادی یوکرائن کی حکومت کو ایسے اسلحہ سے لیس کرتے جارہے ہیں کہ اگر جنگ ہو تو روس کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑے اور روسی عوام صدر پیوٹن کے خلاف ہوجائیں۔ روس کی دوسری سرحد پر فن لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے ۔ امریکہ نے اسے اپنے جدید ترین اسٹیلتھ جنگی طیارے ایف 35 بیچنے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹیلتھ ایسے طیارے ہوتے ہیں جنہیں راڈارنہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ نے یوکرائن کے معاملہ پر سخت موقف اختیار کیاہے تاکہ یورپ کے قائد اور محافظ کے طور پر اسکی پوزیشن قائم رہے جبکہ روس کو معلوم ہے کہ چین کے عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد امریکہ اس سے جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔وہ صرف اس پر معاشی پابندیاں لگاسکتا ہے۔امریکہ اور یورپ نے عندیہ دیا ہے کہ یوکرائن پر حملہ کی صورت میں وہ ماسکو پر سخت مالیاتی اورتجارتی پابندیاں عائد کریں گے۔ لیکن ان پابندیوں کا نقصان پورے یورپی ممالک کو ہوگا جو تیل اور گیس کیلئے اس پر انحصار کرتے ہیں۔مشرقی یورپ میں جنگ نہ ہو تب بھی سرد جنگ کا ماحول بنتا جارہا ہے۔ روس مشرقی یورپ میں اپنے دائرہ اثر کو وسعت دینے اور مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ بیجنگ اور ماسکو کی باہمی شراکت و قربت سے دنیا پر امریکی بالا دستی کو سخت دھچکا لگا ہے۔