کشمیر جنت بے نظر جسے گزشتہ 30برسوں سے بھارتی ظلم وجبرنے جہنم زاربنادیاہے ۔جس کے کوہ دامن قابض بھارتی فوج کے آتش وآہن کی دھمک سے لرزہ براندام ہیں ۔ اسلامیان کشمیر مرغ بسمل بنائے جارہے ہیں۔ایسے عالم میں وادی کشمیرکے شہرہ آفاق جھیل ڈل،جھیل ولر،شالہ بگ جھیل، ہوکرسر ، میر گنڈ اور ہائیگام اور وادی کی تمام جھیلوں اور آبی پناہ گاہوں کی لہروں پرڈیرہ ڈالے ہوئے مہاجر آبی پرندے کشمیرکی آب گاہوںکی دلکشی اور خوبصورتی کوچارچاند لگابیٹھے ہیں اور آبگاہوں کی رونق بڑھارہے ہیں۔ مہاجر آبی پرندوں میں مرغابیاں ، ہنس ،سارس،، کونجیں، پیلیکن، مگ اور سرخاب شامل ہیں۔ کشمیرکے خاک بسرمکین ہر سال ان مہاجر پرندوںکا بڑی بے صبری سے انتظار کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمد سے ان کے مجروح دلوں کووقتی طورپر فرحت مل جاتی ہے ۔بھارتی بربریت کے باعث مقبوضہ وادی کشمیرمیں ہرطرف ویرانی چھائی ہوئی ہے وہیں ان پرندوں کی آمد اوران کانظارہ کرنے سے کسی حد تک غموں سے باہرنکل آنے کا سامان مہیاہوجاتا ہے ۔ ان مہمان آبی پرندوں کے باعث مقبوضہ وادی کشمیرکی جھیلیںاوربڑے بڑے تالاب جنہیں کشمیری زبان میں ’’سر‘‘ کہا جاتا ہے ہرطرف ایک دلفریب منظر پیش کررہے ہیں۔سری نگرکے جھیل ڈل میں ہزاروں کی تعداد میں کئی اقسام کے آبی پرندوں کے جھنڈہائے جھنڈ ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں جس سے اس شہرہ آفاق جھیل کی خوبصورتی اوراس کی رونق میںاضافہ ہواہے ،جبکہ ایشیا کی سب سے بڑے جھیل ولر میں بھی ان دنوں مہاجر آبی پرندوں کی کثیر تعداد آئی ہوئی ہے جن سے بانڈی پورہ کا قدرتی حسن اور دوبالا ہوگیا ہے۔ کشمیربھارتی جبرکاشکارہے ایسے میں اس کی خوبصورتی کااگرکوئی منظر باقی ہے توان پرندوں کی آمدسے ہے ۔ماہرین جنگلی حیات وطیورکے تجزیوں کے مطابق تادم تحریر10لاکھ آبی پرندوں نے وادی کے آبی ذخائر پر اپنا ڈھیرا جما لیا ہے ۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آبی پرندے رنگ، نزاکت اور خوبصورتی کا امتزاج ہیں جن کا تحفظ متعلقہ اداروں اور علاقہ مکینوں کا فرض ہے۔یخ بستہ سردیوں میں رہنے کے لئے سائبریااور وسطی ایشیا کیساتھ ساتھ دیگر ممالک سے کشمیر آنے والے مہاجر آبی پرندوں کی آمد کا سلسلہ ہرسال نومبر کے آخری دنوں میں شروع ہوجاتا ہے اوریہ سلسلہ ماہ اپریل کے وسط تک جاری رہتاہے ۔ ماہرین جنگلی حیات وطیور کا کہنا ہے کہ یہ پرندے کشمیر کے’’ ایکو سسٹم ‘‘کو برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں اس لئے ان سے اتنی ہی محبت کی جانی چاہئے جتنی ہم اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق ڈل جھیل کے پانی میں مچھروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور یہ پرندے نہ صرف یہاں آکر ان مچھروں کو کھاتے ہیں بلکہ مضر صحت کیڑے مکوڑوں کو کھا کر یہاں کے’’ ایکو سسٹم ‘‘کو کنٹرول کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔یہ نہ صرف زمین کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ انسانی زندگیوں کیلئے بھی انتہائی اہم ہیں اگر یہ پرندے نہیں ہوں گے تو پل بھر میں دنیا ہی ختم ہو جائے گی ۔ماہرین حیوانات وطیور کاکہناہے کہ جن پرندوں کے آباء واجداد کشمیر آتے تھے ان کی نسل بھی اپنے آباء کے نقش قدم پرچل کر وادی کشمیر آتی ہے۔مقبوضہ کشمیرواردہونے والے ان آبی پرندوں کاڈسپلن بڑادیدنی ہوتاہے۔یہ جب اڑان بھرتے ہیں توایک لمبی قطارمیں چلتے ہیں اوران کے چلنے سے افق پرایک کالی لکیرنظر آجاتی ہے ۔نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے بارے میں تحقیقی کام ایک عرصے سے جاری ہے اور ماہرین طیور یہ جاننے کی مستقل کوشش کررہے ہیں کہ آخر یہ پرندے اڑان بھرنے کیلئے راستے کا تعین کس منصوبے اور ڈسپلن کیساتھ کرتے ہیں کہ سبھی بلا تامل کے ایک ساتھ اڑنے لگتے ہیں۔ برسوں کی تحقیق اور تجربات کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پرندے بالعموم شمالی علاقوں کیلئے زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں تاہم وہ حسب ضرورت اپنے فیصلے پر نظر ثانی بھی کرلیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پرندے لمبے سفر کو آرام کا ذریعہ بنانے کیلئے اس قدرتی ہنر سے کام چلاتے ہیں جنہیں عصری ہوابازی میں ’’ایوی ایشن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور یہ ہنر بھی انکی چھٹی حس کی ہی ایک قسم ہے جس میں پرندے انسان سے کہیں زیادہ سمجھدار اور ذہین پائے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں پرواز کی لمبائی اور بلندی دونوں میں حیرت انگیز توازن پیدا کرنے کی سکت ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر وہ نقل مکانی کیلئے کمر باندھتے ہیں جبکہ بہت سے ملاح سمندری سفر کے دوران انہی پرندوں کو رہنما بنانا زیادہ سود مند سمجھتے ہیں۔ یہ رپورٹ’’ یوریشن ری واربلرز ‘‘نامی ادارے نے تیار کی ہے جو خاص اس کام میں مہارت رکھتا ہے۔ نہایت ڈسپلن کے ساتھ یہ مہمان آبی پرندے سپیدصبح نمودارہوتے ہی جھنڈ اورگول کے گول اڑان بھرتے ہیں اور شام کی خونین شفق کے ظہور کے ساتھ ہی آبگاہوں میں بیٹھتے ہیں آس پاس کے علاقوں میں رہنے والوں کے لئے خوب نظارہ پیش کرتے ہیں اور لوگ جوش وخروش کے ساتھ انہیں دیکھنے کیلئے نکلتے ہیں۔ چونکہ اسلامیان کشمیرخودمرغ بسمل بنے ہوئے ہیںاس لئے ان پرندوں کوشکارہونے کا خطرہ کم ہے ۔ سائبیریا سمیت روس کے دیگر علاقوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچنے سے پہلے وہاں سے ہر سال ہزاروں پرندے ہجرت کر کے ارض کشمیرکی جھیلوں، دریائوں، ندی نالوں،نہروں اور تالابوں میںچندمہینے گذارنے کے لئے آجاتے ہیں اور نومبر سے اپریل تک کشمیرکی آب گاہوں میں بسیرا کرتے ہیں اوراپریل کے اواخرمیں فضائی راہ لیتے ہوئے واپس قطاراندرقطار اپنے دیس چلے جاتے ہیں ۔ سرینگر اورکشمیرکے دیگر علاقوں کے آب گاہوں میں ان مختلف اقسام اور رنگ برنگی مہاجرآبی پرندوں کی موجودگی اورانکی چہچاہٹ اور میٹھی بولیوں سے کشمیری مسلمان محضوظ ہورہے ہیں ۔ آبی ذخائر کے نواحی علاقوں میں رہائش پذیر لوگ حسب قدیم آب گاہوں کا رخ کر رہے ہیں۔