علامہ اقبال کی حیاتِ ظاہری کے آخری سالوں میں ان کا شعری مجموعہ’’ضرب کلیم‘‘شائع ہوا،جس کی نظمیں خاص اسلوب اور اندازِ بیان کی حامل ہوئیں،حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح۔۔۔باطل افکار و نظریات اور طاغوتی طاقتوں پرضرب کاری،کتاب کے زور دار اسلوبِ بیان میں شعریت یا تغزل کم اور فلسفہ اور حکمت زیادہ،بعض نظمیں اور اشعار تو الہامی درجے کے محسوس ہوتے،از خود اقبال اپنی عمر کے پختہ حصے اور فن کے اُس اعلیٰ درجے پر تھے کہ جہاں خیالات کی گہرائی اور فکر کی پختگی اپنے نقطۂ کمال پر ہو،ضرب کلیم کے اختتامی حصّے میں’’محراب گُل افغان کے افکار‘‘کے نام سے،ایک طویل نظم ہے،جس میں محراب گل نامی ایک فرضی افغانی کردار کے ذریعے،اقبال افغانوں/پٹھانوں کی خودی،خودداری،افتادِ طبع اور مزاج کی بات کرتے ہوئے، بیسویں حصّے کے پہلے شعرمیں کہتے ہیں: فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا ’’مردِ کوہستانی‘‘ یعنی بیابانوں،صحراؤں،کہساروں اور پہاڑوں کے مکین۔۔۔ زیادہ مضبوط،توانا،ہمت وَر اور کشادہ دل ہوتے اور بے سروسامانی کے باوجود،کسی کے تسلّط اور اقتدار و اختیار کو تسلیم نہیں کرتے۔ویسے یہ حقیقت محتاج تصریح نہیں کہ محراب گل نے جو کچھ کہا وہ صرف افغانوں یا پٹھانوں کے لیے نہیں بلکہ وہ پوری ملّت کے لیے تھا،مجھے ضربِ کلیم کی اس طویل نظم کے یہ اشعار بھی اپنے ممدوح کے حسبِ حال لگے،جنہوں نے اپنی علمی،دینی اور روحانی میراث کی حفاظت کے لیے محض خونِ جگر ہی نہیں ۔۔۔ شہادتوں کے نذرانے بھی دیئے: میرے کُہستاں تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں تیری چٹانوں میں ہے میرے اَبُّ و جَد کی خاک روزِ ازل سے ہے تو منزلِ شاہین و چرخ لالہ و گل سے تہی،نغمۂ بُلبل سے پاک تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں خاک تری عنبریں،آب ترا تاب ناک یعنی: اے میرے پہاڑی وطن!میں تجھے چھوڑ کر کہاں چلا جاؤں،تیری چٹانوں میں تو میرے بزرگوں کی قبریں ہیں۔تیری فضا گو لالہ اور گلاب کے پھولوں سے خالی اور بلبل کے نغموں سے پاک ہے،مگر تیرے پیچ و خم میں تو میرے لیے بہشت کی خوشبوئیں اور جنت کے نظارے ہیں،تیری مٹی کی مہک ، میرے لیے مشک و عنبر کی طرح ہے۔باز کبھی چکور اور کبوتر کا غلام نہیں ہوسکتا،کیا میں جسم کے بچاؤ کی خاطر روح کا خاتمہ کر ڈالوں۔ پیرنور الحق قادری وطنِ عزیز کے مقتدر حلقوں کی نہایت محترم اور معتبر شخصیت تو ہیں ہی،۔۔۔ایک جینیئس بھی ہیں،انہوں نے ایوانِ صدر کے دامن کو پھیلا کر،صدر مملکت کی سرکردگی میں مذہبی طبقات سے مشاورت،باہمی گفت و شنید اور اعتماد سازی کی انتہائی مفید اور مستحسن روایت قائم کر کے،محراب و منبر اور سجادہ و مصلّٰی کے ساتھ مستحکم روابط کی نئی طرح ڈال دی ہے،اوریوں’’کورونا آگاہی‘‘کے سلسلے میں اہم اور مشکل مراحل اور اہداف کو خوش اسلوبی سے سَر کرنے کے عمل کوانہوں نے مزید آگے بڑھا لیا ہے۔اقتدار اور اختلاف کے سارے ایوان اور دائیں اور بائیں کہ جملہ مبلغین۔۔۔اس امر پر متفق ہیں کہ’’کوویڈ‘‘ کی پہلی لہر میں حکومتی’’ایس او پیز‘‘پر صحیح سپرٹ کے ساتھ عمل صرف اور صرف مساجد،مدارس اورزاویوں و خانقاہوں ہی میں ہو ا ہے،جس کا بہت زیادہ کریڈٹ صاحبزادہ پیر نورالحق قادری کو جاتا ہے۔رابطے کے مضبوط آدمی ہیں،صوفیا کے گروہ کے فردِ وحید،جمال وجلال کا آمیختہ،حُسنِ صورت و سیرت کا مرقع،مرنجاو مرنج۔۔۔ایک دن جامعۃُ الرشید کراچی تو دوسرے دن جامعۃُ المنتظر لاہور۔۔۔گذشتہ دنوں بادشاہی مسجد میں محراب ومنبر کانفرنس کی نشست طویل،بلکہ طویل تر ہوئی،مگر کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی سے آخری لمحے تک،ماحول کو موضوع پر مرتکز کیے رکھا۔بین المذاہب مکالمے کے امین اور بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار،وزارت کا حلف اٹھایا تو داتا دربار حاضری کی دعوت پیش ہوئی،چادر چڑھاتے اور پھول پیش کرتے،گویا ہوئے، میرے بزرگوں نے نصیحت کی تھی بیٹاجب بھی لاہور جانا تو حضرت داتا صاحب کی حاضری قضا نہ کرنا۔سال سے زاید ہواہے، گذشتہ انٹرنیشنل سیرت کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے اگلے روز لاہور ورودفرمایا،راقم نے داتا دربار میں استقبال کیا،ہمراہ ایک عرب شیخ تھے، تعارف آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا یہ ڈاکٹر مازن،تیونس سے ہماری کانفرنس کے مندوبِ خاص ہیں،داتا دربار حاضری کی شرط پر پاکستان آئے۔۔۔ اس وعدے کو نبھانے کے لیے از خود،اپنی ہمراہی میں لیے حاضر ہوگیا۔ مہمان بڑے با ذوق تھے،ان کی خواہش پر مزارِ اقبال کی زیارت کا بھی اہتمام ہوا۔لاہور میں،حالیہ،بین المذاہب عالمی مشائخ و علماء کنونشن میں ان کے بھتیجے صاحبزادہ محمدعدنان قادری اور بھانجے صاحبزادہ محمد جنید قادری (پیر آف مانکی شریف) ان کے قائمقام ہوئے۔دوسال ہونے کو ہیں، جب ان کے والدِ گرامی پیر عبدالعزیز شیخ گلؒ دنیا سے پردہ فرما کر اپنے آبائی علاقے پیروخیل (لنڈی کوتل) میں آسودہ خاک ہوئے، جو تصوف و طریقت کے حلقوں کی زینت اور دین و فقر کی محفلوں کی روشنی تھے۔تعزیت کے لیے لنڈی کوتل کا قصد تھا ،لیکن کیبنٹ میٹنگ کے سبب،آپ منسٹر انکلیو اسلام آباد میں دستیاب ہوگئے،دسمبر کے ایسے ہی دنوں میں مارگلہ کے دامن میں سردیوں کی روشن دوپہر اور تواضع کرتی نرم دھوپ میں آپ کا روایتی قہوہ میسر ہوا ، محبت آمیز پیرائے میں فرمایا،آپ پشاور تک آجاتے، تو آگے لے جانے کا اہتمام بھی ہو جاتا۔سرکاری کاموں میں،ذاتی باتیں زیادہ اچھی بھی نہیں ہوتی،ہاں،اگر ان میں اخلاق،رواداری اور بالخصوص اپنے مشن اور کام کے ساتھ"Committment" دوسروں کے لیے چراغِ راہ ثابت ہو سکے،تواس میں کچھ ایسا مضائقہ بھی نہیں۔’’رویتِ ہلال‘‘کے مسئلے پر مفتی پوپلزئی اور مفتی منیب الرحمن کو وزارتِ مذہبی امور کے کمیٹی روم میں ایک میز پر بٹھایا،میلادُالنبی ﷺ کے موقع پر’’ماحولیاتی آلودگی اور ہماری ذمّہ داریا،سیرۃُ النبی ﷺ کی روشنی‘‘ کے انتہائی اہم موضوع پر قومی رحمۃ للعالمین سیرت کانفرنس کا خوبصورت اہتمام کیا،جس میں صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان شریک ہوئے،گذشتہ روز بین المذاہب گول میز کانفرنس میں یورپی یونین کے سفیر کی موجودگی میں کہا کہ آزادی اظہار کے نام پر ،کسی کو مذہب اور مذہبی مقدسات کی توہین نہیں کرنے دیں گے ۔گذشتہ ہفتہ علماء اور دینی طبقات سے مشاورت کا ملک گیر اجتماع،اس طرح منعقد کیا کہ از خودپوٹھوہار اور راولپنڈی کے مذہبی و روحانی زعما اور سرکاری عمائدین کے ہمراہ،ایوانِ صدر اسلام آباد میں صدرِ مملکت کے ساتھ،اس اہم ویڈیو کانفرنس کے میزبان، لاہور میں گورنر پنجاب کی سرکردگی میں اکابر دینی شخصیات گورنر ہاؤس کے’’دربار ہال‘‘میں،جبکہ اسی طرح کراچی،کوئٹہ،پشاور کے ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں ارباب حل و عقد اور اصحاب بست و کشاد براجمان ہوئے۔کم و بیش تین گھنٹے پہ محیط،اس طویل مشاورتی عمل میں ہر صوبے سے تمام مسالک کے علماء اور جملہ دینی طبقات کی آراء کی روشنی میں،مشترکہ اور متفقہ لائحہ عمل اور اعلامیے کا اعلان ممکن ہوا،جس کے سبب ’’کوویڈ‘‘کی حالیہ لہر سے نبرد آزما ہونا ممکن ہوسکے گا۔