حضرت غالب نے جب کہا تھا درد دل لکھوں کب تک ، جاؤں ان کو دکھلاؤں انگلیاں فگار اپنی ، خامہ خونچکاں اپنا تو یہ تو یقین ہے کہ وہ اخبار میں کالم نہیں لکھتے تھے۔شعر لکھتے تھے، خطوط لکھتے تھے اور کتابیں لکھتے تھے۔لیکن اس شعر سے کم از کم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ’’ ان ‘ ‘ کی شکل میں کوئی تھا جسے فگار انگلیاں اور خون ٹپکاتا قلم دکھایا جاسکتا تھا۔اور وہ ’’ان ‘ ‘ غالب کی داد رسی کے قابل بھی تھا۔ ہمارامسئلہ اخبار کا کالم بھی ہے اور کسی ایسے کی عدم موجودگی بھی جس سے فریاد کی جاسکے ۔اس لیے صاحبو! ہمارا مسئلہ غالب کے مسئلے پر غالب ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کا آخری عشرہ آلگا۔مجھے یاد ہے کچھ سال پہلے جب رمضان نسبتاً ٹھنڈے موسم میں آرہے تھے تو ہم یہی بات کر رہے تھے کہ جب مئی جون کے رمضان ہوں گے تو کیا بنے گا۔ویسے تو سخت گرمی کے رمضان چکھے ہوئے ہیں بلکہ اس وقت چکھے تھے جب سہولتیں اور آسائشیں کم میسرتھیں ۔تیس پینتیس سال پہلے کے اس رمضان اور آج کے رمضان میں بہت فرق آچکا ہے۔اور اب جب زمانہ تیس پینتیس سال کا ایک چکر کاٹ کر دوبارہ مئی جون کے رمضان سے ملاقات کروائے گا تو اور زیادہ فرق آچکا ہوگا۔ویسے تو کل کا بلکہ اگلی سانس کا بھی بھروسہ نہیں لیکن پینتیس سال بعد کے رمضان تو یقیناً اس وقت سایہ فگن ہوں گے جب اس موجودہ دنیا کی قریب قریب نصف آبادی آنکھیں بند کرچکی ہوگی۔ خیر بات اس رمضان کی ہورہی ہے ۔ملک بھر میں شدید گرمی ، اور لوڈ شیڈنگ نے اسے امتحان کا رنگ دے دیا ہے ۔کیا ستم ہے کہ وہ قوم جو ان وعدوں پر امید لگائے بیٹھی تھی کہ 2018 ء میں لوڈ شیڈنگ کا نشان تک ختم ہوجائے گا اور گرمیاں سکھ چین سے گزریں گی اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔اسی طرح سخت گرمی میں بلا اطلاع بجلی گھنٹوں غائب ہے اور ہر سال معمول کے مطابق سحر و افطار اور تراویح کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہ کیے جانے کی یقین دہانیوں کے باوجود انہی تینوں اوقات میں دھڑلے سے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔یہ لاہور کا حال ہے تو آپ دوسرے شہروں کی مخلوق کے مصائب کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔مجھے تو اب غصہ آتا ہے یہ پڑھ کر کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے لوڈشیڈنگ کا نوٹس لے لیا ہے ۔ نوٹس۔چہ خوب؟ واپڈاکے کرتا دھرتا کسی اور قابل تو ہیں ہی نہیں ، نوٹس لینے کے قابل بھی نہیں۔تصویر کچھ ایسی سامنے آتی ہے کہ واپڈا کے سارے چھوٹے بڑے افسرمیز پر ٹانگیں رکھے ، کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے سو رہے ہیں ۔ صرف اسی وقت بیدار ہوں گے جب وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا چیف جسٹس نوٹس لیں گے ۔ورنہ یہ نیند پوری کریں گے جو کبھی پوری ہوتی ہی نہیں۔ جناب شاہد خاقان عباسی اپنی حکومت کی شاندار کارکردگی بتا کر رخصت ہوئے جس میں بجلی کے شاندار اضافے کے اعداد و شمار بھی شامل تھے۔سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی سارا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کے بعد اپنی اور اپنی حکومت کی بجلی کے بارے میں کارکردگی بتاتے ہوئے ،دبی زبان سے لوڈ شیڈنگ کا اقرار کرتے ہوئے ،پچاس ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچے ہوئے درجہ حرارت کا ذکر کرتے ہوئے ،اور ڈیمز میں پانی کم ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے ،اور پھربات سمیٹتے ہوئے انگلی کھڑی کرکے متنبہ کر گئے کہ نگران دور حکومت میں لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ان کا ذمہ نہیں۔جیسے ہم بچپن میںکھیلتے ہوئے کہتے تھے میرا ذمہ توش پوش۔ آپ کا ذمہ توش پوش کیسے بھئی ؟ملاحظہ کیجیے کہ ابھی سے نون لیگ کے بیانات آنے شروع ہوگئے ہیں کہ نگران حکومت لوڈ شیڈنگ ختم کرے۔پانچ سال حکومت کرنے اور قوم کو 2018 ء کی خوش خبریاں سنانے کے بعد آپ ان سے جواب طلب فرما رہے ہیں جو ابھی سیٹ پر ٹھیک سے بیٹھے بھی نہیں ۔ کیاکمال تقسیم کی ہے آپ نے۔اگر بجلی آرہی ہے تو سارے سہرے آپ کے سر۔اور اگر نہیں آرہی تو نومولود نگران انتظامیہ ذمے دار۔ ورنہ پھر موسم اور خشک سالی سے جواب طلب کریں۔ہمارا ذمہ توش پوش۔ سننے میں یہ آرہا ہے کہ گردشی قرضہ بہت بڑھ چکا ہے اور فرنس آئل کے لیے پاور کمپنیوں کو پیسے نہیں مل رہے۔چنانچہ بجلی کی پیداوار رکی ہوئی ہے۔اب پیسے آئیں گے تو فرنس آئل آئے گا۔فرنس آئل آئے گا تو بجلی پیدا ہوگی۔و علٰی ھذا القیاس ۔تا تریاق از عراق آوردہ شود۔۔اس دوران ان شاء اللہ پری مون سون اور مون سون بارشیں شروع ہوجائیں گی۔اللہ اللہ خیر سلا۔ پچھلے دس پندرہ سال میں بجلی کے نام پر جو تکلیف اور جو قیمت اس قوم کے صارفین نے اٹھائی ہے شاید ہی کسی اور قوم کے حصے میں آئی ہو ۔مہنگی ترین بجلی۔یہ سرچارج ،وہ سرچارج،یہ ٹیکس اور وہ ٹیکس۔یہ شرط اور وہ شرط۔سب ملا کر وہ رقم جو صارف کی کمر توڑ کر رکھ دے۔کتاب سبز نے کہا تھا کہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی ۔لیکن ہم نے نا انصافی بلکہ ظلم کا یہ بوجھ بھی اٹھایا کہ بجلی چوروں کے حصے کی رقم بھی اہل محلہ ادا کرتے ہیں اور ان سب کے بعد نصیب کیا ۔گرمی ،پسینہ، انتظار۔ یو پی ایس اور جنریٹرز کے خرچ اور مسائل۔اور اگر کبھی آپ کے محلے کے ٹرانسفارمر میں یا بجلی کے کھمبے سے آپ کے گھر تک آتی تار میں کوئی نقص پیدا ہوگیا تو لائن مین سے لے کر ایس ڈی او تک کی منتیں خوشامدیں الگ ۔ واپڈا کے دفتر کے لا تعداد چکر الگ ۔ اور خرابی ٹھیک ہوجانے کی صورت میں لائن مینوں کا بھتہ الگ ۔صرف ایک ادارہ یعنی واپڈا اپنی ذیلی کمپنیوں سمیت ان حکمرانوں سے ٹھیک نہ ہوسکا۔دفتروں میں وہی رشوت خور رویے، وہی لمبی قطاریں،وہی دفتروں کی خالی کرسیاں، وہی بے چارگی اور وہی بے آسرا پن۔ فگار انگلیاں کس کو دکھائیں اور خون ٹپکاتا قلم کیا کرے۔ یہاں کوئی ’’ ان ‘ ‘ ہے ہی نہیں۔ یہی سب دیکھتے دیکھتے بھگتتے بھگتتے ایک عمر بیت گئی ۔ سچ یہ ہے کہ یہ سب ٹھیک ہونے کا انتظار پھرمزید انتظار اور پھر مزید انتظار کئی عمروں کے برابر ہے ۔ کیا تیرے انتظار کا حاصل ہے انتظار کیا تیرے انتظار کی حد انتظار ہے اگرچہ لوڈ شیڈنگ اور بجلی منصوبوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی بدترین گورننس اور دور حکومت سے موازنہ کیا جائے تو نون لیگ کا دور فرشتہ صفت نظر آتا ہے لیکن یہ صرف کم تر برائی کا انتخاب ہے ۔کوئی نظام ،کسی سرکاری ادارے کا نظام اس دور میں بھی درست نہیں ہوا۔ کام کے دورانیے کو چھوڑ دیں۔ 2018ء میں نون لیگ کی صف لپٹ جانے کے بعد کی صورت حال کو دیکھ لیں۔کیا کبھی نواز شریف اس پر ندامت کا اظہار کریں گے کہ ان کی خالی خولی وعدوں سے بھری پھیکی اور بے روح تقریروں میں کمی تھی تو صرف بجلی ہی کی تھی؟۔کیا شہباز شریف کبھی مان سکیں گے کہ نندی پور محض تیل پینے والا ہاتھی ثابت ہوا؟کیا خواجہ آصف کبھی اس کا اعتراف کریں گے کہ بجلی کے بارے میں ان کے سب وعدے پچاس فیصد سے آگے نہ بڑھ سکے۔؟یہ فیصلے اور یہ وعدے جس جس نے بھی کیے کیا کبھی وہ اس پر تاسف کے دو لفظ بھی کہے گا؟ زمین آسمان اپنی جگہ بھی بدل لیں تو یہ ہونے والا نہیں۔دعووں اور وعدوں کو نکال دیں تو سیاسی لیڈروں کے پاس بچتا کیا ہے؟ سو دعووں اور وعدوں ہی کی بہار آنے والی ہے ، انتخابات کا میلہ سجنے والا ہے جس میں سارے نکمے کام چور اور نا اہل اپنی اپنی مثالی کارکردگی کے دعووں کے ڈھیر لگادیں گے ۔ وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا۔رمضان کا آخری عشرہ آلگا اور یہ بھی بالآخر ختم ہوجائے گا۔رمضان کے بعد انتخابات کا ڈھول ڈھمکا اور شدت اختیار کرجائے گا۔ـ سب کچھ اسی طرح رہے گا۔