پاک ایران کشیدگی اچھی نہیں اب ہو گئی تو بڑھنے سے روکنا چاہیے۔چین اور ترکیہ نے مصالحتی ثالثی کا مشورہ دیا ہے۔ یہ ابدی حقیقت ہے کہ ہر لڑائی اور جنگ کا اختتام مذاکرات اور مصالحت سے ہوتا ہے۔ جنگ بندی میں حقیقت پسندی کلیدی کردار ادا کرتی ہے نیز باہم ادب‘ احترام اور پسند و ناپسند کو مدنظر رکھنا بنیادی ضرورت ہے۔ ایران نے 16جنوری 2024ء کی شب پاک بلوچستان کے علاقے پنجگور کی ایک کٹیا(جھونپڑی) پر میزائل داغا‘ ایک بڑھیا اور دو معصوم بچے شہید ہوئے۔ ایران کا مذکورہ حملہ بغیر پیشگی اطلاع کے تھا نیز ایران نے اقوام متحدہ میں موقف اپنایا کہ ہم نے پاک بلوچستان میں دہشت گرد تنظیم ’’جیش العدل‘‘ کا ہیڈ کوارٹر تباہ کیا ہے اور دہشت گردوں کو مارنا اقوام متحدہ کے چارٹر(Charter)قانون کے مطابق ہے لہٰذا ایرانی حملہ امن قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔ پاکستان نے جوابی حملے کے لئے دو دن انتظار کیا مگر سفیر بدری کے ردعمل کا اظہار فوری کیا جبکہ باہم سفارتی عملہ اسلام آباد اور تہران میں تاحال موجود ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ ایرانی سفیر رضا عامری مقدمی پہلے ہی ایران میں موجود تھے اور بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرامنیم جے شکر (Dr.s.Jaishnker)بھی ایران میں تھے۔ ڈاکٹر جے شنکر بھارت کے مشہور سفارتکار صحافی سبرامنیم کے بیٹے ہیں۔ یہ فیملی پاکستان دشمنی میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر جے شنکر سنگاپور‘ چین‘ امریکہ میں سفیر رہے۔ جبکہ یہ روس ‘ جاپان اور دیگر ممالک میں سفارتی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔یہ مشرقی یورپ بشمول یوکرائن کے بھارتی ڈیسک کے ڈائریکٹر ناظم بھی رہے ہیں۔نیز ڈاکٹر جے شنکر ٹاٹا سنز‘ پرائیویٹ کے صدر اور گلوبل کارپوریٹ ایشوز Global Corporate Affairsکے صدر بھی ہیں۔ القصہ ان کا عالمی مالیاتی معاملات میں بھی خاصا دخل ہے۔ جس میں IMFعالمی بنک World Bankایشیائی ترقیاتی بنک وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان کی دوسری بیوی جاپانی Kyokoتھیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر جے شنکر بھارتی جنتا پارٹی BJPکے رکن ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں وزیر خارجہ بنایا گیا اور بعدازاں گجرات سے راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا اور یہ وزیر اعظم نریندر مودی کے معتمد ترین ساتھی مشیر ہیں۔بدقسمتی سے اس وقت پاکستان ’’اپنوں‘‘ اور عالمی دوستوں کی مہربانی سے نظریاتی طور پر اندرونی اور بیرونی سرحدوں کے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ پاکستان میں عالمی مالیاتی اداروں اور امن پالیسی کے باعث شدید ترین معاشی مشکلات کا شکار بھی ہے۔ پاک افغان سرحد اور پاک ایران سرحد پر عالمی اتحادی قوتوں کی چھتری تلے بھارت کی پاکستان کے مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی۔اس ضمن میں افغانستان کی مخلوط حکومت اور ایران کی انقلابی حکومتی انتظامیہ دانستہ یا نادانستہ بھارت اور اس کے عالمی اتحادی حلیف اسرائیل اور امریکہ کی سازشی عمل سے مبرا نہیں رہی ۔ ماضی میں پاکستان کی امن پسند پالیسی کو کمزوری سمجھا گیا ۔پاکستان کی دفاعی اور فوجی اہلیت اور صلاحیت دنیا میں بے مثال ہے ۔امن سب چاہتے ہیں مگر سلامتی عزیز ترین اثاثہ ہے۔اغلباً قائد اعظم نے امن پسندی کے پس منظر میں بجا فرمایا کہ اگر امن چاہتے ہو تو جنگ کے لئے تیار رہو۔ If you want peace be ready for warامن خیرات یعنی منت سماجت سے نہیں ملتا‘ خریدا جاتا ہے اور جوابی کارروائی امن کی ضامن ہوتی ہے۔ اگر پاکستان کی موجودہ فوجی قیادت فوری جواب نہ دیتی تو بھارت نے عالمی اتحادی قوتوں اور اداروں کی مدد سے پاک افغان اور پاک ایران سرحدی مضافات سے پاکستان کے اندر گوریلا دہشت گرد کارروائیوں کو تیز تر کر دینا تھا۔ نیز اب استعمال ہونے والے ’’دہشت گردوں‘‘ کو بھی کان ہو گئے کہ وہ اور ان کی ’’پناہ گاہیں‘‘ محفوظ نہیں۔ یہ کارروائی ضروری تھی اور بہت پہلے ہونا چاہیے اور الحمد للہ اس آپریشن سرمچار کوآرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر نے اپنی براہ راست نگرانی میں کیا جب امریکہ اور عالمی اتحادی قوتوں‘ اداروں اور میڈیا کو جوابی کارروائی کا یقین ہو گیا کہ اب وہ ’’پلوامہ ڈرامہ‘‘ کا دوسرا منظر نہیں بن سکتا تو انہوں نے آرمی چیف کی ہاں میں ہاں ملا دی کیونکہ بھارت سمیت دنیا کی پالیسی پاکستان سے نو ایگزٹ No Exitکی ہے۔ پاکستان افواج اور ہتھیاروں کو زنگ نہیں لگا۔پاکستان منظم اور موثر کارروائی اور کارروائیاں کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر ایران کو میزائل کا جواب نہ دیا جاتا تو پاکستان بھارت نے ایران‘افغانستان بھارت سے وابستہ طویل پاکستانی سرحدوں کو جنگی رنگ میں رنگ دینا تھا۔ 20دن بعد الیکشن ہے۔ ایرانی میزائل حملہ اور اس قسم کی ممکنہ کارروائیاں پاکستان کے ماردھاڑ اور قتل و غارت اور عوامی فساد کا سبب بن سکتی ہیں۔ امریکہ اسرائیل فی الحال خاموش ہیں مگر یاد رہے کہ مذکورہ ممالک بھارت کے سٹریٹجک شراکت دار ہیں یعنی ان سب کے خطے میں مفادات مشترکہ ہیں بظاہر پاک ایران کشیدگی آغاز ہے اختتام نہیں مگر پاکستان کی جوابی کارروائی نے پاک فوج کو تین جانب سرحدوں پر منتشر ہونے سے بچا لیا۔ فارسی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ کجامی نمائد ‘ کجامی زند‘‘ دکھایا‘کچھ‘ مارا کچھ۔ پاک ایران کشیدگی کی بازگشت دور رس اور دیرپا ہے اس کشیدگی نے جہاں اسرائیل اور امریکہ کو غزہ کشیدیگی پسپائی یا ظلم و جور کی پالیسی میں منہ چھپائی کا موقع دیا کہ میڈیا میں غزہ کے اندر ہونے والے مظلوم‘ معصوم‘ بے بس اور مجبور مسلمانوں کی نسل کشی سے مرکزی کوریج نظر انداز ہوئی وہاں پاک ایران منظر اور بھارتی سازباز کے پرانے اور نئے دریچے بھی وا کئے ہیں۔ مثلاً ذوالفقار علی بھٹوکے بلوچستان میں فوجی آپریشنز پر شاہ ایران نے تنقید کی تھی ۔خمینی کے دور کے انقلابی وزیر رفسنجانی کہہ چکے تھے کہ جنرل ضیاء الحق کی پاک امریکہ دوستی کے پس منظر میں بھارت کے ساتھ پاکستان کے خلاف کھڑے ہیں ۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں بھارتی فوجی افسر کلبھوشن ایرانی شہری کے شناختی کارڈ پر پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کی سرپرستی کرتا ہے۔آج پاک بلوچستان پاکستانی شہریوں کو بلوچ آرمی فرنٹ‘ بلوچ لبریشن فرنٹ(BLS, BLF)کے مرکزی ہیڈ کوارٹرز ایرانی بلوچستان میں تھے ۔ پاکستان نے موجودہ جوابی میزائل حملے میں مذکورہ کالعدم بی ایل اے اور بی ایل ایف میں موجود شرپسند اور دہشت گرد پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنایاہے۔ یاد رہے کہ بہاولپور فضائی سازش (17اگست 1988ئ) کے بعد بھارت نے امریکہ‘ اسرائیل ‘ برطانیہ ‘ یورپ اور روس کے ساتھ مل کر پاکستان میں ’’اپنوں‘‘ کی مدد سازش کی ۔ افغان مجاہد قیادت نے کابل کے اندر بھارتی سفارتخانہ بند کر دیا ہے جبکہ بھارت کابل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کو تیار نہیں۔