جمہوریت جدید دور میں ایک ایسا زمینی مذہب بن چکا ہے، جس کے تحت ہر قومی ریاست کا نظم و نسق چلانے کے لئے ایک مقدس کتاب ’’آئین‘‘ ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی تمام قومی ریاستوں میں یہ مقدس کتاب بالکل ان کے قیام کے بعد آغاز میں ہی تحریر کر دی گئی، یا پھر ایسے ممالک جہاں طرزِ حکومت آمریت یا شہنشاہت سے جمہوریت میں بدلا تو پھر فوراً ہی نظامِ مملکت کو چلانے کے لئے یہ ’’مقدس کتاب‘‘، آئین تحریر کر دیا گیا۔ اسے علم سیاسیات کی زبان میں معاشرتی میثاق (Social Contract) کہا جاتا ہے۔ تمام جمہوریتیں اس مقدس کتاب کا اس قدر احترام کرتی ہیں کہ اس کی نافرمانی کو بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس جرم کی ان کے ہاں وہی سزا ہے جو ریاست میں ایک باغی کی ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا کی ہر جمہوریت میں آئین کو ایک بالادست مقدس کتاب کی حیثیت دی جاتی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں آئین میں ترمیم کا طریقہ کار انتہائی مشکل بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی تمام جمہوریتیں اپنے آئین کے ایک بنیادی ڈھانچے کا تصور رکھتی ہیں۔ اس بنیادی آئینی ڈھانچے کو کبھی اور کسی بھی وقت بدلا نہیں جا سکتا۔ پارلیمنٹ اگر آئین میں کوئی ترمیم کرنا چاہے تو وہ اسی بنیادی ڈھانچے کے اندر ہی ہو سکتی ہے۔ ترکی اور بھارت کی مثالیں اس سلسلے میں بہت اہم ہیں۔ دونوں کے آئین سیکولر ہیں۔ طیب اردگان نے اپنی ساری سیاست کی بنیاد اسلام اور خلافت ِ عثمانیہ کی نشاۃِ ثانیہ پر رکھی۔ بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر برسراقتدار آیا۔ آئین کی تقریباً تمام دفعات کو بدل کر رکھ دیا لیکن اس کی پہلی چار دفعات جو آئین کو سیکولر ڈھانچہ مہیا کرتی تھیں، انہیں نہیں بدل سکا۔ اسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ راشٹریہ سیوک سنگھ سے ہی نہیں بلکہ نظریاتی طور پر 1920ء میں لکھی جانے والی گول وارکر کی کتاب ’’ہندو توا‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ آر ایس ایس نے قیامِ ہندوستان کے وقت آئین سازی میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کسی بھی قسم کے ایسے علاقائی قومیت کے تصور کو تسلیم نہیں کرتے، جس میں تصور دیا جائے کہ جو جہاں پیدا ہو گیا وہ وہاں کا شہری ہو گا۔ ہم بھارت میں یہ حق صرف اور صرف ہندوئوں کو دینے کے قائل ہیں۔ بھارت نے 26 نومبر 1949ء کو اپنا ایک آئین منظور کر لیا جس کی بنیادیں سیکولر تھیں۔ گذشتہ بھارتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں دو تہائی اکثریت کی نشستیں جیت گئی اور اس نے آئین میں ترمیم کے لئے پچاس فیصد سے زیادہ ریاستوں میں بھی حکومت بنا لی، لیکن بھر پور کوشش اور پارٹی کے دبائو کے باوجود بھی وہ بھارتی آئین کو تبدیل کر کے اسے اپنی خواہشات کے مطابق ایک ہندو ریاست میں تبدیل نہ کر سکی۔ آئین کے مقابل پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور صرف اور صرف دو ممالک میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک برطانیہ اور دوسرا اسرائیل۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کا کوئی تحریری آئین نہیں ہے۔ برطانیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم جمہوریت کی ایک قدیم تاریخ رکھتے ہیں اس لئے ہماری روایات ہی ہمارا آئین ہے، جبکہ اسرائیل چونکہ 14 مئی 1948ء کو ایک کٹر یہودی نسل پرست مملکت کے طور پر معرضِ وجود میں آیا تھا اس لئے اس کی پارلیمنٹ جسے وہ کینسٹ کہتے ہیں اس کے پہلے اجلاس میں ہی یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ ہمارے پاس ’’تالمود‘‘ اور ’’تورات‘‘ ہے، اس لئے ہمیں آئین نام کی کوئی کتاب تحریر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک تحریری آئین کا بنیادی ڈھانچہ اس قدر اہم ہوتا ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے 28 ستمبر 2018ء کو بھارتی پارلیمنٹ کی منظور کردہ اس آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے دیا جس کے تحت انہوں نے 124(A) کا آرٹیکل منظور کر لیا تھا۔ اس آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا یہ فیصلہ کسی ’’فل کورٹ‘‘ نے نہیں دیا تھا اور نہ ہی بھارتی پارلیمنٹ نے اس فیصلے کو سیاسی اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کا نام دے کر سپریم کورٹ سے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ بھارت کی عدالتی تاریخ میں اس کیس کو ’’قومی عدالتی تعیناتی کمیشن‘‘ (National Judicial Appointments Commission) کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے پانچ رکنی بنچ نے سنا اور فیصلہ دیا تھا۔ جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر کی سربراہی میں جسٹس جے چلی میور، جسٹس مدن لی لوکر، جسٹس کوریان جوزف اور جسٹس آدرش کمار گوئیل نے اس فیصلے میں یہ اُصول طے کر دیا کہ سپریم کورٹ کی آزادی و خودمختاری کا تصور آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اس لئے پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں وہ اس پر کسی بھی قسم کی کوئی قدغن لگائے۔ امریکہ جو تحریری آئین کے بانیان میں سے سمجھا جاتا ہے، اس کے آئین کو تحریر کرنے والی شخصیت تھامس جیفرسن (Thomes Jefferson) کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ:"Absolute Power to the Parliment may result in elected Despotism"’’پارلیمنٹ کو اگر مکمل اختیار دیا جائے تو یہ ایک منتخب استبدادیت یا مطلق العنانیت کی شکل ہو گی‘‘۔ اس نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا اگر تم لوگوں کو آئین سے انحراف کی اجازت دے دی جائے تو پھر ایک ڈکٹیٹر ہو یا 180 ڈکٹیٹر، ان میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ مشہور مفکر اور فرانسیسی آئین کا خالق روسو (Rusoue) بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کا مخالف تھا۔ اسے جب کہا گیا کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ تو خودمختار ہے تو اس نے طنزیہ طور پر کہا تھا "People of Great Britain are free only on the day of election and slaves for the rest of the period" ’’برطانوی عوام صرف الیکشن والے دن آزاد ہوتے ہیں اور باقی تمام عرصہ کے لئے وہ غلام ہوتے ہیں‘‘۔ بھارت نے عدالتی خودمختاری کو شروع دن سے ہی ایک ایسی اساس کے طور سنبھالا ہے کہ جس کا احترام ازحد ضروری ہے۔ پاکستان نے ابھی اپنا آئین بھی نہیں بنایا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کیشوانند بھارتی کیس (1973) اور پھر منروامل کیس (1973) میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 368 میں جو دو شقیں 4 اور 5 شامل کی گئی تھیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ میں کسی بھی قسم کی آئینی ترمیم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اس آئینی ترمیم کو ہی یکسر غیر آئینی قرار دے دیا اور اس کے بعد بھارت پارلیمنٹ پر عدالتی نگرانی قائم ہو گئی۔ دنیا بھر کے تمام آئینی ماہرین اور عدالتی نظام کی شدھ بدھ رکھنے والے اس بات کے قائل ہیں کہ اگر پارلیمنٹ کو مکمل طور پر بالادست قرار دے دیا جائے تو اس سے اکثریت کی آمریت (Tyranny of Majority) کی راہ نکلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مارشل نے 1803ء میں اپنا وہ مشہور فیصلہ دیا تھا جسے "Marbury V. Madison" کہا جاتا ہے۔ اس فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا تھاکہ ہم اپنے منتخب نمائندوں پر عدالتی نظر (Judicial Oversight) رکھیں گے کیونکہ یہ جس طرح کی بیک گرائونڈ سے آتے ہیں وہ اس قابل نہیں ہے کہ یہ ہمارے ملک کے اہم ترین فیصلے آزادانہ طور پر کر سکیں۔ پاکستان میں جو لوگ اس بات پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کو رائے ونڈ اور بلاول ہائوس کا غلام کر لیں گے، انہیں صرف عالمی تاریخ کا مطالعہ کر لینا چاہئے۔