گزشتہ روز اسلام آباد میں مارگلہ ڈائیلاگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کشمیر کی وجہ سے خطرے میں ہے ۔ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا مشکل ہو گیا ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ کرتار پور کھولنے کا اقدام اسلامی اصولوں اور قائد اعظم کے پر امن ہمسائیگی کے تصور کے عین مطابق کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کچھ امداد بھی ملی تھی تاہم ہم نے سبق سیکھا ہے کہ کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بننا۔ آئندہ ہم کسی بھی تنازعہ کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کریں گے۔پاک بھارت تعلقات بارے وزیراعظم کے خیالات سے کسی کو اختلاف کی گنجائش نہیں ، البتہ کرتار پور راہداری کے بارے میں ان کے خیالات سے اتفاق اس بناء پر ممکن نہیں کہ ایک طرف وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ کشمیر میں بھارتی مداخلت کی وجہ سے پاکستان خطرے میں ہے ، دوسری طرف وہ بھارت کے صوبہ پنجاب میں بسنے والے بھارتی شہریوں کو اس حد تک سہولتیں دے رہے ہیں کہ ان سہولتوں سے بھارت و دیگر ملکوں میں بسنے والے مسلمان بھی محروم ہیں ، اصولی طور پر خارجی معاملات کو ملکوں کی سطح پر برقرار رکھنا چاہئے اورمعاملات ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حل ہونے چاہئیں۔اسلامی اصول اور قائد اعظم کا نظریہ غیر مساویانہ نہیں ۔ ہر بات کا کوئی نہ کوئی جواز ہوتاہے یا پھر جواز پیدا کر لیا جاتاہے ۔ ضیاء الحق دور میں جب جہادِ افغان کے نام پر فسادِ افغانستان میں پاکستان کو پھنسایا گیا تو اس وقت بھی بہت سے جواز اور دلائل پیش کیے گئے ۔ اب وزیراعظم خود کہہ رہے ہیں کہ دوسروں کے تنازعات میں الجھنے کا پاکستان کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے ، اب بھی جواز پیش کرنے کی بجائے حقائق کے مطابق پالیسیاں بنائی جائیں ۔ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی حکمران برسر اقتدار آتا ہے تو صاحب الرائے لوگ اپنی انا اور خودداری کی وجہ سے حاکمانِ وقت سے دور ہو جاتے ہیں البتہ خوشامدی اور چاپلوس لوگ دربار کا قرب اس لئے حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کو اپنا چورن بیچنا ہوتا ہے۔ اس لئے صاحبان اقتدار تک درست مشورے نہیں پہنچ پاتے اور ہم جیسے بے اختیار لوگ اخبارات یادیگر ذرائع سے چیڑیوں کی طرح جو ’’ چیں چیں ‘‘اور ’’چاں چاں ‘‘کرتے ہیں ، وہ حاکمانِ وقت تک پہنچنے سے پہلے ختم کر دی جاتی ہے‘ لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں کہ کرتار پور راہداری کے مسئلے پر وسیب سمیت چھوٹے صوبوں کے تحفظات ہیں ۔ اصولی طور پر پاک بھارت کے درمیان ویزے کی سہولتیں دینے کے مسئلے پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ۔ مگر یہ سہولتیں صرف غیر مسلم سکھوں کو نہیں دیگر مذاہب کو بھی ملنی چاہئیں ۔ ملتان میں ہندؤں کے مقدس مقامات ہیں ‘ ہولی کی رسم بھی ملتان سے شروع ہوئی ‘ اسی طرح ہندؤں اور دیگر مذاہب کے مقدس مقامات سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں بھی ہیں ، ان کو بھی سہولت ملنی چاہئے ۔ میں چار مرتبہ بھارت گیا ، وہاں کے مسلمانوں سے ملا ، بادشاہی مسجد کے نائب پیش امام سے ملا ، وہ بخاری سید تھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ ہماری نسبت اوچ کے بخاری سادات سے ہے اور ہم ترس رہے ہیں کہ کسی طرح اوچ شریف اور ملتان کی زیارت کریں ۔ اسی طرح دیگر مسلمان بھی اولیاء کرام کے مزارات پر آنا چاہتے ہیں ، اگر سہولتیں دینی ہیں تو سب کو دی جائیں ، غیر ملکیوں کو سہولتیں دینے کے مسئلے پر ایک فارمولا بننا چاہئے جو مساوات اور انصاف پر مبنی ہو ۔ اسی طرح وہ سرائیکی بولنے والے ہندو جو نقل مکانی کر کے انڈیا چلے گئے وہ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے بے تاب ہیں ، ان کو بھی سہولت دیں۔واہگہ بارڈر کھلا ہوا ہے ، کرتار پور راہداری بھی آپ نے کھول دی ہے ، آپ نے سکھوں کیلئے یہ قدم اٹھایا ، کوئی بات نہیں ، اچھی بات ہے ۔ سب کو سہولتیں ملنی چاہئیں مگر کیا امروکا بٹھنڈہ جو کہ دہلی تک جانے کا قریبی راستہ ہے اور اس راستے کو حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا راستہ بھی کہا جاتا ہے ، کو نہیں کھلنا چاہئے ؟ ملتان دہلی روڈ جو کہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کا راستہ ہے ، کو نہیں کھلنا چاہئے؟ آپ نے بابا گرو نانک یونیورسٹی بنا دی ، بابا گرو نانک بابا فرید الدین گنج شکر پاکپتن والی سرکار کے عقیدت مند تھے اور سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں بابا فرید کے اشلوک شامل ہیں ۔ کیا پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی نہیں بننی چاہئے ؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ترقی اور ترجیحات کے اصول وضع کرنے ہونگے اور عدم مساوات کو ختم کرکے ہی انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں ۔ ملتان کے بارے میں ایک فارسی شعرہے ’’ گرد گرما گدا و گورستان ‘‘ ۔ یہ شعر پڑھ کر یہ حوالہ دیا جاتا ہے کہ ملتان میں گرد، گرما ، گدا و گورستان کے سوا کیا رکھا ہے؟ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ملتان کی گرد کس نے اڑائی ؟ اور وہ شہر جسے بیت الذہب کہا گیا کو گدا و گورستان میں کس نے تبدیل کیا ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ حملہ آوروں کی کوئی مذمت کرنے کو تیار نہیں ، ہمارے ہاں تو رواج یہ ہے کہ حملہ آوروں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ ملتان کی تاریخی قلعے پر آسمان بوس ان انگریز آفیسرز کی قبریں بنی ہوئی ہیں جو 19اپریل 1948ء کومقامی افراد سے مڈ بھیڑ میں مارے گئے ۔ ملتان میں بہت سے عیسائی قبرستان میں 1849ء کی جنگ میں مارے جانے والے حملہ آوروں کی قبریں موجود ہیں اور ان پر ان کے نام اور وفات کی تاریخ لکھی ہوئی ہے جبکہ ان حملہ آوروں کے مقابلے میں جو مقامی شہید ہوئے ان کی قبروں کا نام نشان نہیں ۔ انگریز قبروں کی مرمت و بحالی کیلئے حکومت کی طرف سے ہر سال فنڈز آتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ہم نے آزادی حاصل کر لی یا اب تک غلام ہیں ؟ اگر آزادی حاصل کر لی ہے تو پھر حملہ آوروں کی قبروں کو پوجنے کی بجائے ان بہادر لوگوں کی قبروں کو تلاش کرنا چاہئے جو مادرِ وطن پر قربان ہوئے ۔ اسی طرح 2 جون 1818ء کو ملتان میں نواب مظفر خان اور سکھا فوج کے درمیان کفر اسلام کا معرکہ ہوا ‘ نواب مظفر خان نے رسم شبیری ادا کرتے ہوئے ملتان کے سپاہ سمیت اپنے اہل و عیال تک کو قربان کر دیا مگر حملہ آور سکھا فوج کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے ۔اب سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریاست مدینہ کے دعوے داروں کو نواب مظفر خان شہید کا مقبرہ تعمیر کرنا چاہئے یا رنجیت سنگھ کا مجسمہ ؟