برصغیر پاک و ہند میں مسلمانان ہند کا دو قومی نظریہ ابھی علامہ اقبال کی شاعری اور چند صاحبانِ بصیرت علماء کی تحریروں تک محدود تھا،مگر اس سے پہلے سر زمین ہند پر ایک اور دو قومی نظریے کی گونج سنائی دے چکی تھی۔ اس نظریہ کے تحت ،ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں سے لے کر سری لنکا کی وادیوں تک " ہندو ستان" ایک سرزمین ہے جسے ایشور نے دیوتاؤں کے لئے خاص کیا ہے، یہ برہما، وشنو اور شیو کی دھرتی ہے اور یہاں صرف ان کے ماننے والوں کوہی رہنے کا حق حاصل ہے۔وہ نسلیں جو یہاں کی مستقل رہائشی ہیں اور نسل در نسل سے چلی آ رہی ہیں اگر وہ کسی اور دھرم یا دین کو اختیار کرچکی ہیں تو وہ اسی صورت یہاں رہ سکتی ہیں اگر وہ واپس ہندو دھرم اختیار کر لیں ،جبکہ وہ قومیں جو سر زمین ہند میں باہر سے آئی ہیں، وہ پلیچھ یعنی ناپاک ہیں، ان کے وجود سے اس دھرتی کو پاک کیا جانا ضروری ہے۔ اس نظریہ کی بنیاد پر 27 ستمبر 1925 کو راشٹریہ سیوک سنگھ کی بنیاد رکھی گئی۔ ناگپور شہر کے ایک ڈاکٹر کیشو رام ہیگواڑ کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس تنظیم کے بننے کے بعد پہلی دفعہ ملک میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے نظریاتی کارکنوں نے 1927 میں گنیش مہاراج کی یاترا نکالی۔ اس وقت تک یہ دستور تھا کہ مسجد کے سامنے موسیقی بند کر دی جاتی تھی مگر اس نے خاص طور پر ایسا نہ کیا۔ فساد پھوٹ پڑے اور یہیں سے اس تنظیم نے باقی ہندو قوم پرست تنظیموں آریہ سماج اور ہندومہاسبھا کے ساتھ مل کر ہتھیار اٹھانے، جتھہ بنانے اور مسلح جدوجہد کرنے کا اصول اپنایا۔ ہندو قومیت کے اس نظریے کے دو اہم نظریاتی لکھاری ہیں، ایک ونود دمدر ساورکر اور دوسرا مادھو سودیش گول واکرہیں ۔ان دونو ں کی تحریروں نے اسوقت کی دنیا میں مقبول اور نافذ سیکولر قومی ریاست کے تصور کی نفی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے تصورِ قومیت کو نہیں مانتے جس میں بھارت کی سرزمین پر بسنے والے تمام لوگ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ یا جین سب کے سب شہری قرار پائیں اور برابر کے حقوق رکھتے ہوں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ ہندوستان کی سرزمین صرف اور صرف ہندو دھرم کے ماننے والوں کے لیے ہے اور وہی اس کے مالک ہیں اور وہی اس کے شہری ہو سکتے ہیں۔ باقی سب اقوام اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ جائیں۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ قانون بنانے کا اختیار عوام کو حاصل نہیں بلکہ بھارت میں وہی قانون نافذ ہوگا جوہندوؤں کی الہامی کتاب "منو سمرتی" میں درج ہے۔ اس کتاب میں ہندو معاشرے کے لیے تمام قوانین درج کیے گئے ہیں۔ شادی، زمین، جائیداد، کاروبار، اخلاقیات، عبادات ،سب کے بارے میں تفصیلی قوانین موجود ہیں۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں درج ہے کہ شادی ختم نہیں ہوسکتی، بیوہ دوبارہ شادی نہیں کر سکتی، جنگ کے قوانین، حکمرانی کے ضابطے سب دیے گئے ہیں۔ ہندو قوانین کی یہ کتاب پورے ہندو معاشرے کو چار ذاتوں میں تقسیم کرتی ہے اور ہر ایک کے لئے مختلف حقوق بیان کرتی ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان نہ تو ایک قومی ریاست بن سکتا ہے اور نہ ہی ایک سیکولر لبرل ریاست، بلکہ یہ ایک مکمل طور پر ہندو ملک ہے جس کی قومیت کی ایک اپنی تاریخ ہے اور یہاں پر قوانین کا ماخذو منبع عوام یا پارلیمنٹ نہیں ،بلکہ ہندو الہامی کتاب "منوسمرتی "ہوگی۔ اسی نظریے کی بنیاد پر بھارت کی آزادی سے پہلے، 3 جولائی 1947 کو انھوں نے کانگریس کے بانی لارڈ ہیوم کو اس فتنے کا بانی قرار دیا کہ "بھارت ایک ایسا وطن ہے جس میں ہندو اور مسلمان یکساں حیثیت رکھتے ہیں"۔ آر ایس ایس نے کہا کہ یہ ہندو مذہب کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی ایک برطانوی سازش تھی اورآئین سازی کے لئے ہونے والے ہر طرح کے مذاکرات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ 17 جولائی 1947 کو جب بھارت کے جھنڈے پر اتفاق ہوا تو راشٹریہ سیوک سنگھ نے اسے مسترد کردیا اور کہا ہم ایسے جھنڈے کو نہیں مانتے جس پر ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائیوں کا اتفاق ہو۔ جس طرح پانچ ہزار سال سے ہندوستان کی ایک تہذیب، زبان، روایات ہیں اسی طرح اس کا پرچم بھی ہے جو باہر سے آنے والے حملہ آوروں کے سامنے ہمارے جنگجو اٹھاتے تھے۔ وہی پرچم بھارت کا جھنڈا ہو گا۔ ناگپور میں جولائی میں یہ پیلا جھنڈا لہرا دیا گیا اور یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ ایک دن ترنگے کی جگہ یہ پرچم بھارت پر لہرایا جائے گا۔ اسی طرح جب ملک کا نام بھارت یا انڈیا رکھا جا رہا تھا تو اس وقت بھی آر ایس ایس نے اسکی مخالفت کی اور اس کا نام ہندوستان یعنی "ہندوؤں کی جگہ" رکھنے کا اعلان کر دیا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کی تنظیمی کتاب جسے ایم ایس گولوالکر نے تحریر کیا ہے وہ ان کے لیے کسی الہامی کتاب سے کم کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس کا نام ہے Bunch of thoughts ہے جس کا عمومی ترجمہ "گلدستہ خیالات" ہو سکتا ہے۔ اس میں دو باب اندرونی خطرات کے بارے میں درج ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ "ہندوستان" کو سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں سے ہے اور دوسرا خطرہ عیسائی مذہب سے۔ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ پورے بھارت میں لاتعداد چھوٹے چھوٹے پاکستان ہیں جو ہندو راشٹر کے خلاف سازش ہیں جبکہ عیسائی بھی ہمارے رسم و رواج کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ دونوں اور دیگر مذاہب اس ملک کے کبھی باسی نہیں ہوسکتے۔ اس نظریے کی کامیابی کے لئیے آر ایس ایس کے نزدیک موجودہ بھارتی آئین کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ان کے نزدیک یہ آئین دراصل مغرب زدہ ہے اور اس میں قدیم بھارت کے معاشرے کی کوئی جھلک موجود نہیں ہے۔ ایک سیکولر بھارت دراصل ہندو دشمن سماج ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ میں داخلے کے لیے ایک حلف دیا جاتا ہے اور ایک دعا منگوائی جاتی ہے، جس کا لب ِلباب یہ ہے کہ میں اس دیس کو ایک راشٹریہ سماج بنانے کے لیے اپنا تن من دھن سب قربان کر دوں گا۔ آر ایس ایس فیڈرل آئین کے خلاف ہے اور اسکے کے نزدیک پورے "ہندوستان" میں کوئی صوبہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ صوبے بھارت دھرتی کو تقسیم کرتے ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کا دو قومی نظریہ اس قدر خوفناک ہیں کہ یہ ہندو ؤں کے علاوہ کسی دوسری قوم کو اس سرزمین پر ایک انچ زمین بھی دینے کو تیار نہیں۔ 1973 تک انہوں نے جمہوریت اور آئین سے کٹ کر مسلسل جدوجہد کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ صرف ایک معاملے میں کامیابی ہوئی اور وہ یہ کہ وہ ہندوؤں کی اکثریت کو مسلمان دشمنی پر قائل کر سکے۔ اب انہوں نے اس سیکولر آئین کو بدلنے کے لیے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔اس مقصد کے لئے اس شدت پسند تنظیم نے 6 اپریل 1980 کو سیاسی میدان کے لئے "بھارتیہ جنتا پارٹی" کے نام پر ایک سیاسی جماعت بنائی۔ 1984 کے الیکشن میں ابھی ان کی رام جنم بھومی مہم کا آغاز تھا اس لیے انہیں صرف دو سیٹیں ملیں، لیکن رام مندر کی تحریک نے 1989 میں انہیں 85 سیٹیں دلادیں اور آج ان کے پاس 543 کے ایوان میں سے 282 سیٹیں ہیں۔ بھارتی آئین کو بدلنے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں،(1) راجیہ سبھا میں دو تہائی اکثریت، جو بی جے پی کو 2019ء کے مارچ کے راجیہ سبھا الیکشن میں مل جائے گی کیونکہ اس کے ارکان کو ریاستیں منتخب کرتی ہیں اور 29 میں سے 22 ریاستیں بی جے پی کے پاس ہیں۔(2)پچاس فیصد ریاستوں میں حکومت ہونی چاہیے اور یہ ان کے پاس ضرورت سے زیادہ ہے۔ اب انہیں صرف 2019 کے الیکشن میں 282 کی بجائے 362 سیٹیں درکار ہیں۔ یہ اسی طرح ممکن ہے اگر مسلمان دشمنی نعرے کو پاکستان دشمنی اور جنگ سے نتھی کر کے الیکشن لڑا جائے۔راشٹریہ سیوک سنگھ اپنی گزشتہ پچانوے سال کی محنت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے گی۔ پاکستان سے جنگ ان کی مجبوری ہے۔ اس جنگ کو پائلٹ کی واپسی یا امن کی لوری سے نہیں روکا جا سکتا۔ کیونکہ پاکستان سے جنگ کے نتیجے میں ہی الیکشن بی جے پی کو دو تہائی اکثریت دلا سکے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ایک ایسا آئین بھارت کو تحفے میں ملے گا جس میں 23 کروڑ بھارتی مسلمانوں کا اس دنیا میں کوئی وطن نہیں رہے گا۔ ایسا بے وطنی کا تجربہ دس لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی صورت میں پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ اس خطہ ارضی پر جہاں دو سو کے قریب ممالک ہیں روہنگیا مسلمانوں کو کوئی شہریت دینے کو تیار نہیں،اسلامی ممالک بھی نہیں۔یہی حال بھارت کے مسلمانوں کا ہو جائے گا ۔ یہ ہے وہ راشٹریہ سیوک سنگھ کا وو دو قومی نظریہ جو اس خطے کو اس جنگ میں لا کھڑا کرے گا جیسے "غزوہ ہند" کہتے ہیں، جس میں مسلمان خواہ ادھر کا ہو یا ادھر کا اس جہاد کا امین ہوگا۔ چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی۔