پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ چینی وزیر دفاع کے دورہ جی ایچ کیو کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور نئے چیلنجز سامنے آنے کے باوجود باہمی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ چینی وزیر دفاع سے ملاقات میں خطے کی سکیورٹی سمیت اہم امور پر بات چیت ہوئی۔پاکستان اور چین کے درمیان قریبی تعلقات، گہری دوستی اور سٹرٹیجک روابط دونوں ممالک اور عوام کے بنیادی مفاد میں ہیں ۔ خطے میں امن واستحکام اور ترقی کے لئے ان کی اہمیت ہے۔ دونوں اطراف یہ احساس موجود ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان پائیدار شراکت داری علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہوتی تبدیلیوں اور حالات وواقعات سے ہمیشہ بالاتر رہی ہے اور وقت کے ساتھ یہ تعلقات مضبوط سے مضبوط تر کئے جانے کی ضرورت ہے۔ دونوں اطراف اس عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ نئے دور میں مشترکہ مستقبل رکھنے والی کمیونٹی کی تشکیل کے لئے دونوں ممالک کی سدا بہار پاکستان چین سٹرٹیجک کوآپریٹو پارٹنر شپ کو مزید مضبوط کیاجائے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ (بی آر آئی) منصوبہ کا ایک اہم حصہ ہے جو تبدیلی لانے والا پراجیکٹ ہے۔ سی پیک اتھارٹی کا مقصد یہی ہے کہ منصوبہ جات پر تیزی سے عمل درآمد کو یقینی بنایاجاسکے۔ سی پیک کا اعلی معیار کا نیا ترقیاتی مرحلہ پاکستان میں صنعتی ، سماجی ومعاشی ترقی کو فروغ دے گا۔ سی پیک کے خطے پر ٹھوس معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوں گے اور یہاں کے عوام کے لئے فائدہ مند ہوں گے۔ اس قدر اہم منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھارت سرگم عمل ہے ۔بھارتی وزیر اعظم کھلے عام دھمکیاں دیتے ہیں ،ان حالات میں پاکستان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے ۔ چینی قیادت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کے متعلق پاکستان کے موقف کو دنیا کے ہر فورم پر سراہا اور اس کی غیر مشروط حمایت کی۔چین کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ایک تاریخی تنازعہ ہے اور اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، دوطرفہ معاہدوں کی بنیاد پر پرامن اورمناسب انداز میں حل ہونا چاہئے۔ ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کی طرف سے حمایت کی وجہ سے بھارت کو مئی بار عالمی فورمز پر شرمندگی اٹھانا پڑی۔پاکستان اور چین دونوں نے افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ پر دستخطوں کا خیرمقدم کیا ۔ دونوں کو امید ہے کہ عالمی برادری جنگ وجدل کے بعد اب افغانستان میں تعمیر نو اور معاشی ترقی کے لئے بھرپور مدد کرے گی۔ پاکستان اور چین کی خطے کو مسلح تنازعات سے بچانے کی کوششوں کے مقابل امریکہ اور بھارت نے دو ماہ قبل حساس سیٹلائٹ ڈیٹا کی فراہمی کے حوالے سے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کر دئیے ۔ یہ معاہدہ ایسے وقت میں کیا گیا جب بھارت کا چین کے ساتھ سرحدی تنازع زوروں پر تھا۔اس حساس ڈیٹا کی مدد سے بھارت اس قابل ہو جائے گا کہ وہ میزائلوں، ڈرونز اور دیگر اہداف کو درست اور بالکل ٹھیک ٹھیک انداز سے نشانہ بنے سکے گا۔بلاشبہ پاکستان اور چین اس کے اہداف ہو سکتے ہیں، ایرانی سائنسدان فخری زادہ کے قتل نے پاکستان کے خدشات کو دو چند کر دیا ہے ۔ اس لئے پاکستان کو اس کا توڑ کرنے والی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہو گی۔عالمی منظر نامہ پر وقوع پذیر ہونے والے یہ واقعات پاکستان کی قومی سلامتی اور اقتصادی مفادات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ امریکہ کی چین کے ساتھ لڑائی محض تجارتی خسارہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں بحیرہ جنوبی چین پر تسلط، مشرق وسطیٰ کی سیاست اور ایران و بھارت کے ساتھ معاملات بھی شامل ہیں۔ پاکستان محض طالبان اور امریکہ کے درمیان ایلچی کا کردار ادا کرکے اور امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کی راہ ہموار کرکے اس بڑی تصویر میں دوررس مفادات کی ضمانت حاصل نہیں کرسکتا۔گزشتہ دنوں لداخ میں چین اور بھارت کے ساتھ چپقلش کو بھی پاکستانی نقطہ نظر سے سود مند سمجھا گیا تھا۔ چین نے بھارت کو متنبہ کیا تھا کہ ’وہ چین کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا اہم ہوگا کہ ایران نے بھارت کو دو منصوبوں سے صرف اسی بنا پر علیحدہ کیا ہے کیوں کہ بھارت نے امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایک طرف ایرانی تیل کی خریداری مکمل طور سے روک دی تو دوسری طرف باہمی معاہدوں کے باوجود سرمایہ کاری میں پیش رفت نہیں کی۔ یعنی بھارت اور امریکہ کے تعلقات کی وجہ سے ایران اور نئی دہلی میں فاصلہ پیدا ہوا ہے۔یہ صورت حال اگر سفارتی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کے لئے امکانات کی نوید دیتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے لئے اندیشے اور خطرات کے گہرے بادلوں کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ خطے اور عالمی منظرنامہ پر ابھرنے والے ان حالات میں پاکستان کو اپنے آپشنز پر سنجیدگی سے غور کرنے اور قومی مفاد کے تناظر میں فیصلوں کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان طویل عرصہ تک امریکہ کا حلیف رہا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں امریکہ نے اب بھارت کو اس خطے میں اپنی امیدوں کا محور بنا لیا ہے۔ پاکستان اپنا معاشی مستقبل محفوظ کرنے کے لئے سی پیک منصوبہ اور چینی سرمایہ کاری کا محتاج ہوچکا ہے۔ یہ منصوبہ اگر چین کے ساتھ دوستی کا ذریعہ ہے تو امریکہ کیساتھ دوری کا سبب بھی بنا ہوا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع میں پاکستان پر سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ ایسے میں اسے نہایت چابکدستی سے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہوگی۔پاکستان اور چین کو خطے میں ایک نئے توازن طاقت کی ضرورت ہے ،دو طرفہ دفاعی تعلقات طاقت کے اس توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں ۔