وزیر اعظم عمران خان اور چینی صدر زی جن پنگ کے درمیان ایک روز میں دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات‘ خطے کی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے معاملات پر گفتگو کی گئی۔ ایک ملاقات دونوں رہنمائوں کی سطح پر جبکہ دوسری پاک چین وفود کی سطح پر ہوئی۔ اس ملاقات کو سی پیک منصوبوں میں تیزی لانے‘ کشمیر پر بھارتی جبر کے خلاف لائحہ عمل کی ترتیب اور چینی صدر کے دورہ بھارت پر پاکستان سے مشاورت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں پاکستانی موقف کی حمایت پر صدر زی جن پنگ اور چینی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ چینی صدر کو پاکستان کی معاشی حالت اور حکومت کی اصلاحات سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے ہم منصب کے تعاون پر احسان مندی کے جذبات ظاہر کئے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات سمندر سے گہرے اور ہمالیہ سے بلند کہے جاتے ہیں۔ ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ حکمران بدلنے یا حکومتوں کی تبدیلی کا ان تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔ یہ تعلقات باہمی اعتماد کے رشتے سے مزین آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین یہ بات پہلے دن سے طے ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قومی مفادات کے خلاف کسی علاقائی یا بین الاقوامی تحریک کی حمایت نہیں کریں گے۔ اس اتفاق رائے نے بحرانوں میں گھرے پاکستان کو ہمیشہ فائدہ پہنچایا۔ چین جیسا بے لوث دوست پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو روزگار ملنے کا امکان ہے۔ نئے کاروبار اور معاشی ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خدمات کا شعبہ فعال ہو گا۔ توانائی اور زراعت کی صنعت میں انقلابی تبدیلیوں کا امکان ہے۔ باہمی تجارت اور صنعتی عمل کو جو فروغ ملے گا اس سے پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے چھ کروڑ افراد کو غربت کے شکنجے سے اسی طرح نجات مل سکتی ہے جس طرح چین نے اپنے 70کروڑ باشندوں کو غربت کی دلدل سے نکالا۔ سی پیک اورچین سے سرمایہ کاری کے منصوبوں کے ضمن میں اگرچہ چینی حکومت اور سفارت کار اس امر کی نفی کرتے رہے ہیں کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد منصوبوں پر جاری کام سست ہوا لیکن سابق حکومت کے وزراء اور ن لیگ کے رہنما تواتر کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت پر سی پیک منصوبوں کو سست روی کا شکار کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ سی پیک مختلف مراحل میں تقسیم منصوبہ ہے۔ پہلا مرحلہ جو مسلم لیگ ن کے ابتدائی برسوں میں مکمل ہوا اس میں مواصلاتی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا۔ صنعتی زونز کے لئے مقامات کا تعین کیا گیا۔ اگلا مرحلہ صنعتی زونز کو فعال بنانا‘ سرمایہ کاری کو تحفظ دینے اور راہداری کے اردگرد معاون منصوبوں کو شروع کرنا ہے۔ اب سی پیک فعال ہونے کو ہے۔ اس کے لئے انتظامی اور قانونی رکاوٹوں کی نشاندہی گزشتہ دو سال سے چینی حکام کررہے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے چین روانگی سے قبل سی پیک اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کر کے دو طرفہ سرمایہ کاری کے لئے اگلے مرحلے کو کھول دیا ہے۔ چینی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات اور صدر زی جن پنگ کے ساتھ وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں وزیر اعظم کے اقدامات کی تعریف کی گئی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ قومی معیشت میں بحران کی شکل میں دکھائی دینے والی کیفیت اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو نئی چینی سرمایہ کاری کا آغاز ہونے پر ختم ہو جائے گا۔ پاکستان اور چین کی قیادت نے متعدد نئے منصوبوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ عمل اس لحاظ سے حوصلہ افزا ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار تیز ہونے سے کئی مسائل حل ہونے لگیں گے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالم اسلام اور اہل کشمیر کے متعلق عالمی برادری کو متوجہ کر کے وزیر اعظم نے اتمام حجت کیا ہے۔ قابل ذکر ریاستوں کے سربراہ بھارت کے فریب سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی ہر تنظیم بھارتی اقدامات کی مذمت کر رہی ہے۔66روز گزر چکے ہیں لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹانے کوتیار نہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ عالمی سرمائے کی بھارت میں موجودگی بہت سے ممالک کو کشمیریوں کے حق میں بولنے سے روک رہی ہے۔ اس صورت حال میں چین اہم کردار کر سکتا ہے۔ خود چین نے حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ چینی صدر چند روز بعد بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دورے کے موقع پر بھارت سے تجارت اور خطے کے معاملات پر بھی گفتگو ہو گی۔ چینی قیادت پہلے ہی دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ پاکستان اور چین کے سٹریٹجک تعلقات کو پیش نظر رکھ کر اس دورے کے متعلق پاکستانی قیادت کو بعض معاملات پر اعتماد میں لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید چینی قیادت سے ملے ہیں۔ اس ملاقات کا مطلب خطے کی دفاعی اور سٹریٹجک صورت حال پر مشترکہ موقف کی تشکیل ہے۔ چینی قیادت خطے کو تنازعات سے پاک اور تجارتی رابطوں سے منسلک دیکھنا چاہتی ہے۔ سی پیک صرف ایک منصوبہ ہے ایسے درجنوں منصوبے چینی سرمایہ کاری سے پورے خطے میں جاری ہیں۔ چین اپنے چار ہزار ارب ڈالر سے بڑے حجم کے زرمبادلہ ذخائر کو دنیا میں پرامن تعلقات کے لے بروئے کار لانا چاہتا ہے۔وزیر اعظم کے حالیہ دورہ چین کے دوران چینی قیادت سے ملاقات پاکستان کے لئے معاشی اور اقتصادی ترقی کے نئے امکانات پیدا کر سکتی ہے۔ معاشی اور سیاسی استحکام کی منزل بیک وقت حاصل کرنے کی اس کوشش کا اندرون ملک اعتراف کیا جانا چاہیے۔