تین ہفتوں سے بھارت اور چین کی فوجیں لدّاخ کے علاقہ لیہہ میں چار مختلف مقامات پرآمنے سامنے کھڑی ہیں۔اگر کسی بھی ملک کی فوج نے اپنی پوزیشن سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو یہ کشیدگی ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ دونوں ملکوں نے فوجوں کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے ‘بھاری ہتھیار سرحد پر پہنچا دیے ہیں۔ جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر فضا میں نگرانی کے لیے چکر لگا رہے ہیں۔ جنگ نہ سہی لیکن یہ سرحدی تناؤ طویل عرصہ تک جاری رہ سکتا ہے۔لیہہ پر بھارت اور چین کا جھگڑا پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کا مقبوضہ علاقہ لیہہ بہت اونچائی پر واقع ایک برفانی صحرا ہے جس میں ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے واقع ہیں۔ اس میں بہت بلند میدان اورگہری گہری گھاٹیاں ہیں۔ آبادی بہت کم ہے ‘ سوا لاکھ سے کچھ زیادہ جس میں ستّر فیصد بدھ مت کے ماننے والے ہیں‘ لدّاخی بولی بولتے ہیںجو تبتی زبان کا ایک لہجہ ہے۔سترہ فیصد آبادی مسلمان اور گیارہ فیصد ہندو ہیں۔ لوگ نسلی اعتبار سے تبتی ہیں‘انکا کلچر‘ رہن سہن بالکل تبت جیسا ہے جو لیہہ کے مشرق میں واقع ہے۔ چین لیہہ کو تبت کا ہی حصہ سمجھتا ہے اور اسے متنازعہ علاقہ قرار دیتا ہے۔تاہم بھارت نے اسے حال ہی میں اپنی ریاست قرار دیا ہے۔ انگریز دور میں یہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔قانونی طور پر اسکا تصفیہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے منسلک ہے۔لیہہ کے مغرب میں کشمیر کی وادی‘ شمال مغرب میں کارگل کا علاقہ ہے۔شمال میں مشرق کے جانب پاکستان کا علاقہ اسکردو(بلتستان) ہے۔سب سے اہم ‘اسکے شمال میں بالکل مشرق کی جانب چین میں واقع درّہ قراقرم ہے جہاں سے گزرنے والی سڑک چین کے صوبہ سنکیانگ کو تبت سے ملاتی ہے۔ اسی درّہ سے مزید آگے شمال کے جانب چین اور پاکستان کو ملانے والی شاہراہِ ریشم یاقراقرم ہائی وے گزرتی ہے۔جنوب میں بھارت کا صوبہ ہماچل پردیش ہے۔لیہہ شہر تک پہنچنے کے لیے سری نگر سے لیہہ تک ایک بڑی شاہراہ موجود ہے۔ دوسری دشوار گزارسڑک جنوب میں بھارت کے ہماچل پردیش کے شہر منالی سے شمال کی جانب چلتی ہو ئی لیہہ تک پہنچتی ہے۔ دلی اور چندی گڑھ سے مسافر طیارے لیہہ کے ائیر پورٹ پر آتے جاتے ہیں۔ پاکستان کے لیے پینتالیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا لیہہ کا علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ہماری زراعت اور پانی کا سب سے بڑا وسیلہ دریائے سندھ تبت کے جنوب میں ایک جھیل سے شروع ہوکر لیہہ کے علاقہ میں داخل ہوتا ہے اورشمال کے جانب سینکڑوں کلومیٹر سفر کرتا ہو ا بلتستان میں داخل ہوتا ہے۔لیہہ کا چھوٹا سا شہر بھی دریائے سندھ کے بالکل قریب واقع ہے۔ دریائے سندھ کے کئی معاون دریا اور ندیاںجیسے دریائے شیوک‘ گلوان‘ زاسکروغیرہ لیہہ میں بہتے ہیں۔ یہ دریا گلیشیروں کے پگھلنے اور بارشوں سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ بھارت ان دریاؤں اور ندی نالوں پر ڈیم بناکر دریائے سندھ کا بہاؤ کم کرسکتا ہے جیسا کہ اس نے چناب اور جہلم پر کیا ہے۔ گزشتہ دس بیس برسوں میں بھارت نے اس علاقہ میں اپنی سرگرمیاں تیزی سے بڑھا دی ہیں۔ دشوار گزار پہاڑی جگہوں پر نئی نئی سڑکیں ‘ فوجی چوکیاں‘جنگی طیاروں کیلیے ائیر فیلڈ بنائے ہیں۔ بھارتی لیڈرز بار بار پاکستان کو دریاؤں کا پانی روکنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ خطرہ موجود ہے کہ بھارت جلد یا بدیر دریائے سندھ کے پانی سے چھیڑ چھاڑ کرسکتا ہے۔جب بھارت نے دریائے چناب پر منصوبے بنانے شروع کیے تو پاکستانی بے خبر سوتے رہے۔ جب پراجیکٹ مکمل ہوگئے تو پاکستان نے ان کے خلاف شور مچانا شروع کیا۔ اگرلیہہ میں دریائے سندھ اور اسکے معاون دریاؤںپر ہم نے کڑی نظر نہ رکھی تو یہاں بھی بھارت وہی کھیل دہرا سکتا ہے۔ بھارت نے لیہہ کے مشرقی کنارے کے قریب انجینئرنگ کا شاہکار سمجھے جانے والی بڑی بڑی نئی سڑکیں بنائی ہیں جو اسکے شمال مشرق میں واقع آخری فوجی اڈہ تک جاتی ہیں۔ اس فوجی پوسٹ کو دولت بیگ اولڈی (ڈی بی او)کہا جاتا ہے۔ یہ اڈ ہ چین میں واقع درّہ قراقرم سے صرف آٹھ کلومیٹر نیچے جنوب میں واقع ہے۔ مطلب ‘ بھارت اگر چاہے تو اس فوجی اڈہ سے کارروائی کرکے درہ قراقرم کو بند کرسکتا ہے جس سے تبت اور سنکیانگ کا رابطہ کٹ جائے گا۔ اسکا نقصان صرف چین کو نہیں بلکہ پاکستان کو بھی ہوگا کیونکہ ہماری شاہراہ قراقرم بھی غیر محفوظ ہوجائے گی۔یہ سڑک سی پیک منصوبہ کا اہم ترین حصہ ہے۔ لیہہ کے مشرقی کنارے پر تبت کی سرحد کے قریب بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاںاس کے خطرناک عزائم کا پتہ دیتی ہیں۔ خاص طور سے جب وہ یکطرفہ طور پر جموں کشمیر ریاست اور لدّاخ کو اپنا باقاعدہ حصہ قرار دے چکا ہے۔ یہ خدشات موجود ہیں کہ دِلّی سرکار لیہہ میں امریکی فوجوںکو بھی سہولیات مہیا کرنا چاہتا ہے جنہیں چین کے خلاف استعمال کیا جاسکے گا۔ انہی خدشات کے پیش نظر چین نے لیہہ کے شمال مشرق میں واقع دریائے گلوان کے وادی میں پیش قدمی کرکے تقریبا چالیس مربع کلومیٹر کے علاقہ پر اپنی فوجی چوکیاں بنادی ہیں۔ پاکستان کے لیے لیہہ دفاعی اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اسکے شمال میںقریب ہی اسکردو واقع ہے اور ذرا مغرب کی جانب سیاچن گلیشئیرکو بھی راستہ جاتا ہے۔لیہہ اور اسکردو شہر سوا دو سو کلومیٹر فاصلہ پر ہیں لیکن ان کے اضلاع کی سرحد متصل ہے۔ اس کے قریب ہی ہمارا دیا مربھاشا ڈیم تعمیر ہورہا ہے۔ بھارت نے گلگت بلتستان کو اپنا علاقہ قرار دیا ہوا ہے۔ اس کے وزیر داخلہ امیت شاہ اپنی پارلیمان میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ان کا ملک گلگت بلتستان پر قبضہ کرے گا۔ دلی سرکار دیامر بھاشا ڈیم کی بھی مخالف ہے۔ بھارتی دفاعی ماہرین اکثر یہ کہتے ہیں کہ اُنکی فوج اسکردو پرآسانی سے قبضہ کرسکتی ہے۔ اس پس منظر میں بھارت کی لیہہ میں سرگرمیوں کا ایک بڑا ہدف پاکستان میں واقع بلتستان کا علاقہ بھی ہے۔چین کی موجودہ بروقت فوجی کارروائی صرف اسکی اپنی سلامتی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دفاع کے لیے بھی اہم ہے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کو بھی بلتستان میں اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانا پڑے گا۔